Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The last of all the Prophets (Muhammad (saws)))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3534.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرااور پہلے انبیاء ؑ کا حال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا۔ اس نے اسے مکمل اور خوبصورت تیار کیا لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی۔ لوگ اس میں داخل ہو کر اس کی عمد گی پر اظہار تعجب کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں: کاش!اس اینٹ کی جگہ خالی نہ چھوڑی ہوتی۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒنے مذکورہ عنوان سے ایک آیت کریمہ کی طرف اشارہ کیا ہے:’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘(الأحزاب:40/33 و فتح الباري:683/6)حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگراینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی تو مکان مکمل ہوجاتا۔اگلی روایت میں ہے:’’میں وہ اینٹ ہوں کیونکہ میرے ذریعے سے نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قادیانیوں کا دعویٰ کہ مرزاغلام احمد بھی نبی ہے محض فریب اور دھوکا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری رہنے کا امکان نہیں رہا اور نہ آپ کے بعد کسی اور نبی کو تجویز کرناہی ممکن ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3401
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3534
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3534
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3534
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت ختم فرمادیا، اب قیامت تک کوئی اور نبی نہیں ہوسکتا نہ ظلی ہوسکتا ہے نہ بروزی، نہ حقیقی ہوسکتا ہے، نہ مجازی۔ آپ قیامت تک کے لیے آخری نبی ہیں جیسے سورج نکلنے کے بعد کسی چراغ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ آپ ایسے کامل ومکمل نبی ہیں کہ اب نہ کسی نئی شریعت اور نئے پیغمبر کی ضرورت ہے اور نہ اب قرآن کے بعد کسی نئی کتاب کی ضرورت ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس پر چودہ سو برس سے پوری امت کا اتفاق ہے مگر صد افسوس کہ اس ملک میں پنجاب میں مرزا قادیانی نے اس عقیدہ کے خلاف اپنی نبوت کا چرچا کیا اور وحی والہام کے مدعی ہوئے اور وہ آیات واحادیث جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ثابت ہے ان کی ایسی ایسی دور ازکار تاویلات فاسدہ کیں کہ فی الواقع دجل کا حق ادا کردیا علماءاسلام بالخصوص ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم نے ان کے دعویٰ نبوت کی تردید میں بہت سی فاضلانہ کتابیں لکھی ہیں۔ ایسے مدعیان نبوت ان احادیث نبوی کے مصداق ہیں جن میں آپ نے خبردی ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے دجال لوگ پیدا ہوں گے جونبوت کا دعویٰ کریں گے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ایسے گمراہ کن لوگوں کے خیالات فاسدہ سے محفوظ رکھے ۔ آمین
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرااور پہلے انبیاء ؑ کا حال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا۔ اس نے اسے مکمل اور خوبصورت تیار کیا لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی۔ لوگ اس میں داخل ہو کر اس کی عمد گی پر اظہار تعجب کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں: کاش!اس اینٹ کی جگہ خالی نہ چھوڑی ہوتی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے مذکورہ عنوان سے ایک آیت کریمہ کی طرف اشارہ کیا ہے:’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘(الأحزاب:40/33 و فتح الباري:683/6)حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگراینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی تو مکان مکمل ہوجاتا۔اگلی روایت میں ہے:’’میں وہ اینٹ ہوں کیونکہ میرے ذریعے سے نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قادیانیوں کا دعویٰ کہ مرزاغلام احمد بھی نبی ہے محض فریب اور دھوکا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری رہنے کا امکان نہیں رہا اور نہ آپ کے بعد کسی اور نبی کو تجویز کرناہی ممکن ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید بن میناءنے بیان کیا اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓمانے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میری اور دوسرے انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسی کسی شخص نے کوئی گھر بنایا ، اسے خوب آراستہ پیراستہ کرکے مکمل کردیا ۔ صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدی ۔ لوگ اس گھر میں داخل ہوتے اور تعجب کرتے اور کہتے کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ خالی نہ رہتی تو کیسا اچھا مکمل گھر ہوتا ۔
حدیث حاشیہ:
میری نبوت نے اس کمی کو پورا کرکے قصر نبوت کو پورا کردیا۔ اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "My similitude in comparison with the other prophets is that of a man who has built a house completely and excellently except for a place of one brick. When the people enter the house, they admire its beauty and say: 'But for the place of this brick (how splendid the house will be)!"