باب:نبی کریم ﷺ کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھی لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The eyes of the Prophet (saws) used to sleep, but his heart used not to sleep)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کی روایت سعید بن میناء نے جابرؓسے کی ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
3570.
شریک بن عبداللہ بن ابو نمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، انھوں نے ہمیں اس رات کاحال بیان کیا جس میں نبی کریم ﷺ کو مسجدحرام(بیت اللہ شریف) سے سیرکرائی گئی تھی۔ آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے تین شخص آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں محو استراحت تھے۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا: وہ کون شخص ہیں؟دوسرے نے کہا: وہی جو ان سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا، جو آخر میں تھا: ان سب سےبہتر کو لے چلو۔ اس رات اتنی ہی باتیں ہوئیں۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری رات پھر آئے بایں۔ حالت کہ آپ کا دل بیدار تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی آنکھیں سو جاتی تھیں لیکن آپ کا دل نہیں سوتا تھا بلکہ تمام انبیاء ؑ کا ہی حال تھا کہ ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے تھے۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ نے اپنے ذمہ یہ کام لیا اور وہ آپ ﷺ کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3437
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3570
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3570
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3570
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس معلق روایت کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے حدیث نمبر۔:7281 کے تحت تفصیل سے بیان کیاہے۔
اس کی روایت سعید بن میناء نے جابرؓسے کی ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
شریک بن عبداللہ بن ابو نمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، انھوں نے ہمیں اس رات کاحال بیان کیا جس میں نبی کریم ﷺ کو مسجدحرام(بیت اللہ شریف) سے سیرکرائی گئی تھی۔ آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے تین شخص آئے جبکہ آپ مسجد حرام میں محو استراحت تھے۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا: وہ کون شخص ہیں؟دوسرے نے کہا: وہی جو ان سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا، جو آخر میں تھا: ان سب سےبہتر کو لے چلو۔ اس رات اتنی ہی باتیں ہوئیں۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری رات پھر آئے بایں۔ حالت کہ آپ کا دل بیدار تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی آنکھیں سو جاتی تھیں لیکن آپ کا دل نہیں سوتا تھا بلکہ تمام انبیاء ؑ کا ہی حال تھا کہ ان کی آنکھیں سوجاتی تھیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے تھے۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ نے اپنے ذمہ یہ کام لیا اور وہ آپ ﷺ کو آسمان کی طرف چڑھا کرلے گئے۔
اس مضمون کو سعید بن میناء نے حضرت جابر ؓ کے واسطے سے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی ( عبدالحمید ) نے بیان کیا ، ان سے سلیمان بن بلال نے ، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا وہ مسجد حرام سے نبی کریم ﷺ کی معراج کا واقعہ بیان کررہے تھے کہ ( معراج سے پہلے) تین فرشتے آئے ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے بھی پہلے کا واقعہ ہے ۔ اس وقت آپ مسجد حرام میں ( دو آدمیوں حضرت حمزہ اور جعفر بن ابی طالب کے درمیان ) سورہے تھے ۔ ایک فرشتے نے پوچھا : وہ کون ہیں ؟ ( جن کولے جانے کا حکم ہے ) دوسرے نے کہا کہ وہ درمیان والے ہیں ۔ وہی سب سے بہتر ہیں ۔ تیسرے نے کہا کہ پھر جوسب سے بہتر ہیں انہیں ساتھ لے چلو ۔ اس رات صرف اتنا ہی واقعہ ہو کر رہ گیا ۔ پھر آپ نے انہیں نہیں دیکھا ۔ لیکن فرشتے ایک اور رات میں آئے ۔ آپ دل کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی آنکھیں سوتی تھیں پردل نہیں سوتا تھا ، اور تمام انبیاء کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ جب ان کی آنکھیں سوتی ہیں تو دل اس وقت بھی بیدار ہوتا ہے ۔ غرض کہ پھر جبرئیل ؑ نے آپ کو اپنے ساتھ لیا اور آسمان پر چڑھا لے گئے ۔
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد وہی قصہ گزرا جو معراج والی حدیث میں اوپر گزرچکا ہے۔ اس روایت سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں کہ معراج سوتے میں ہوا تھا۔ مگر یہ روایت شاذ ہے، صرف شریک نے یہ روایت کیا ہے کہ آپ اس وقت سورہے تھے۔ عبدالحق نے کہا کہ شریک کی روایت منفرد و مجہول ہے اور اکثر اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ معراج بیداری میں ہوا تھا۔ (وحیدی) مترجم کہتا ہے کہ اس حدیث سے معراج جسمانی کا انکار ثابت کرنا کج فہمی ہے۔ روایت کے آخر میں صاف موجود ہے ” ثم عرج به إلی السماء“ یعنی جبرئیل ؑ آپ کو جسمانی طور سے اپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ ، ہاں اس واقعہ کا آغاز ایسے وقت میں ہوا کہ آپ مسجد حرام میں سورہے تھے۔ بہر حال معراج جسمانی حق ہے جس کے قرآن وحدیث میں بہت سے دلائل ہیں۔ اس کا انکار کرنا سورج کے وجود کا انکار کرنا ہے جب کہ وہ نصف النہار میں چمک رہا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sharik bin 'Abdullah bin Abi Namr (RA): I heard Anas bin Malik (RA) telling us about the night when the Prophet (ﷺ) was made to travel from the Ka’bah Mosque. Three persons (i.e. angels) came to the Prophet (ﷺ) before he was divinely inspired was an Aspostle), while he was sleeping in Al Masjid-ul-Haram. The first (of the three angels) said, "Which of them is he?" The second said, "He is the best of them." That was all that happened then, and he did not see them till they came at another night and he perceived their presence with his heart, for the eyes of the Prophet (ﷺ) were closed when he was asleep, but his heart was not asleep (not unconscious). This is characteristic of all the prophets: Their eyes sleep but their hearts do not sleep. Then Gabriel (ؑ) took charge of the Prophet (ﷺ) and ascended along with him to the Heaven.