Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3571.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ ’’اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟‘‘ اس نے عرض کیا: مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی۔ آپ نے اسے پاک مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا تو اس نے نماز پڑھی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند سواروں کے ہمراہ آگے بھیج دیا(تاکہ ہم پانی تلاش کریں)۔ ہم بہت سے پیاسے تھے۔ اس دوران میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت دو بڑی مشکوں کے درمیان اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے ہے۔ ہم نے اسے کہا: پانی کہاں ہے؟اس نے جواب دیاکہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے دوبارہ پوچھا کہ تیرے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟اس نے کہا کہ ایک دن اور ایک رات کاسفر ہے۔ ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لے کہا تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ کیاہوتا ہے؟بہرحال ہم نے اس کی کوئی پیش نہ چلنے دی اور اسے چلنے پر مجبور کردیا یہاں تک کہ ہم اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس نے آپ سے وہی گفتگو کی جو ہم سے کی تھی، البتہ اتنی بات مزید بتائی کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی دونوں مشکوں کو کھولنے کا حکم دیا اور ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے ان سے خوب سیرہوکر پانی پیا اور ہمارے پاس جتنے مشکیزے اور برتن تھے سب بھر لیے لیکن اس سے اپنے اونٹوں کو پانی نہ پلایا۔ اس کے باوجود اس کی مشکیں اس قدر پانی سے بھری معلوم ہوتی تھیں کہ پھٹنے کے قریب تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جوکچھ تمہارے پاس ہے اسے میرے پاس لاؤ۔ ‘‘ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لاکر جمع کردی گئیں۔ جب وہ اپنے قبیلے کے پاس گئی تو کہنے لگی: آج میں سب سے بڑے جادوگر کے پاس سے آئی ہوں یا وہ واقعی نبی ہے جیسا کہ اس کے پیروکار کہتے ہیں، بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے باعث اس گاؤں کے رہنے والوں کو ہدایت دی، چنانچہ وہ خود بھی مسلمان ہوگئی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے معجزات کے بجائے علامات کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ معجزات اور کرامات دونوں کی شامل ہو۔معجزے میں نبی کو جھٹلانے والوں کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کام کردکھایا ہے جو خرق عادت ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔2۔اس عنوان کے تحت معجزات ،کرامات،آئندہ پیش آنے والے واقعات اور قیامت کی علامات بیان ہوں گی۔3۔دور نبوت میں خرق عادت پیش آنے والے واقعات کو معجزہ اور قبل از نبوت عادت کے خلاف واقعات کو ارہاص کہا جاتا ہے۔4۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے پانی میں برکت ہوگئی۔یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ قلیل پانی سے چالیس آدمی سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے مشکیزے اور برتن بھی بھرلیے لیکن مشکوں کا پانی ذرا بھربھی کم نہ ہوا۔5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے،چنانچہ خیبر سے نکلنے کےبعد،حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد،تبوک کو جاتے ہوئے اور غزوہ جیش الامراء(غزوہ موتہ) میں اس قسم کے واقعات پیش آئے،یعنی ایک ہی نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا نکلنا،پتھر سے پانی نکلنے کی نسبت زیادہ وزنی ہے کیونکہ پتھر سے پانی نکل آنا خلاف عادت نہیں ،البتہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی کا نکلنا عام عادت کے خلاف ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:715/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3438
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3571
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3571
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3571
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ ’’اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟‘‘ اس نے عرض کیا: مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی۔ آپ نے اسے پاک مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا تو اس نے نماز پڑھی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند سواروں کے ہمراہ آگے بھیج دیا(تاکہ ہم پانی تلاش کریں)۔ ہم بہت سے پیاسے تھے۔ اس دوران میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت دو بڑی مشکوں کے درمیان اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے ہے۔ ہم نے اسے کہا: پانی کہاں ہے؟اس نے جواب دیاکہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے دوبارہ پوچھا کہ تیرے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟اس نے کہا کہ ایک دن اور ایک رات کاسفر ہے۔ ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لے کہا تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ کیاہوتا ہے؟بہرحال ہم نے اس کی کوئی پیش نہ چلنے دی اور اسے چلنے پر مجبور کردیا یہاں تک کہ ہم اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس نے آپ سے وہی گفتگو کی جو ہم سے کی تھی، البتہ اتنی بات مزید بتائی کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی دونوں مشکوں کو کھولنے کا حکم دیا اور ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے ان سے خوب سیرہوکر پانی پیا اور ہمارے پاس جتنے مشکیزے اور برتن تھے سب بھر لیے لیکن اس سے اپنے اونٹوں کو پانی نہ پلایا۔ اس کے باوجود اس کی مشکیں اس قدر پانی سے بھری معلوم ہوتی تھیں کہ پھٹنے کے قریب تھیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جوکچھ تمہارے پاس ہے اسے میرے پاس لاؤ۔ ‘‘ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لاکر جمع کردی گئیں۔ جب وہ اپنے قبیلے کے پاس گئی تو کہنے لگی: آج میں سب سے بڑے جادوگر کے پاس سے آئی ہوں یا وہ واقعی نبی ہے جیسا کہ اس کے پیروکار کہتے ہیں، بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے باعث اس گاؤں کے رہنے والوں کو ہدایت دی، چنانچہ وہ خود بھی مسلمان ہوگئی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری ؒ نے معجزات کے بجائے علامات کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ معجزات اور کرامات دونوں کی شامل ہو۔معجزے میں نبی کو جھٹلانے والوں کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کام کردکھایا ہے جو خرق عادت ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔2۔اس عنوان کے تحت معجزات ،کرامات،آئندہ پیش آنے والے واقعات اور قیامت کی علامات بیان ہوں گی۔3۔دور نبوت میں خرق عادت پیش آنے والے واقعات کو معجزہ اور قبل از نبوت عادت کے خلاف واقعات کو ارہاص کہا جاتا ہے۔4۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے پانی میں برکت ہوگئی۔یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ قلیل پانی سے چالیس آدمی سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے مشکیزے اور برتن بھی بھرلیے لیکن مشکوں کا پانی ذرا بھربھی کم نہ ہوا۔5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے،چنانچہ خیبر سے نکلنے کےبعد،حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد،تبوک کو جاتے ہوئے اور غزوہ جیش الامراء(غزوہ موتہ) میں اس قسم کے واقعات پیش آئے،یعنی ایک ہی نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا نکلنا،پتھر سے پانی نکلنے کی نسبت زیادہ وزنی ہے کیونکہ پتھر سے پانی نکل آنا خلاف عادت نہیں ،البتہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی کا نکلنا عام عادت کے خلاف ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:715/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا ، انہوں نے ابورجاءسے سنا کہ ہم سے عمران بن حصین ؓ نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاو¿ کیا ( چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے ) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سوگئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا ۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق ؓ جاگے ۔ لیکن آنحضرت ﷺ کو ، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تا آنکہ آپ خود ہی جاگتے ، پھر عمر ؓ بھی جاگ گئے ۔ آخر ابوبکر ؓ آپ کے سرمبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے ۔ اس سے آنحضرت ﷺ بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا ۔ ( پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے ) اور یہاں آپ اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا ۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ۔ آنحضرت ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اس سے فرمایا : اے فلاں ! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا ؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہوگئی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کرلو ( پھر اس نے بھی تیمم کے بعد ) نماز پڑھی ۔ حضرت عمر ان ؓ کہتے ہیں کہ پھر آنحضور ﷺ نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا ۔ ( تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی ، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان ( سواری پر ) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جارہی تھی ۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے ، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلو ، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں ؟ عمران ؓ کہتے ہیں ، آخر ہم اسے آنحضور ﷺ کی خدمت میں لائے ، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی ۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے ( اس لیے واجب الرحم ہے ) آنحضرت ﷺ کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا ۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہوکر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھرلیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا ، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہو تاتھا ابھی بہہ پڑیں گی ۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے ( کھانے کی چیزوں میں سے ) میرے پاس لاو ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لاکر جمع کردیں گئیں ۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ ( اس کے ماننے والے ) لوگ کہتے ہیں ، وہ واقعی نبی ہے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی ، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔
حدیث حاشیہ:
اس قصہ کے بیان میں اختلاف ہے۔ مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ خیبر سے نکلنے کے بعد پیش آیا اور ابوداود میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ یہ تبوک کے سفر کا واقعہ ہے اور ابوداود میں ایک اور روایت کی روسے اس واقعہ کا تعلق غزوہ جیش الامراءسے معلوم ہوتا ہے۔ ایک جماعت مؤرخین نے کہا ہے کہ ا س نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا ہے یہی ان روایات میں تطبیق ہے ( توشیح ) .... یہاں آپ کی دعا سے پانی میں برکت ہوگئی۔ یہی معجزہ وجہ مطابقت باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Imran bin Husain (RA): That they were with the Prophet (ﷺ) on a journey. They travelled the whole night, and when dawn approached, they took a rest and sleep overwhelmed them till the sun rose high in the sky. The first to get up was Abu Bakr. Allah's Apostles used not to be awakened from his sleep, but he would wake up by himself. 'Umar woke up and then Abu Bakr (RA) sat by the side of the Prophet's head and started saying: Allahu-Akbar raising his voice till the Prophet (ﷺ) woke up, (and after traveling for a while) he dismounted and led us in the morning prayer. A man amongst the people failed to join us in the prayer. When the Prophet (ﷺ) had finished the prayer, he asked (the man), "O so-and-so! What prevented you from offering the prayer with us?" He replied, "I am Junub," Alllah's Apostle (ﷺ) ordered him to perform Tayammam with clean earth. The man then offered the prayer. Allah's Apostle (ﷺ) ordered me and a few others to go ahead of him. We had become very thirsty. While we were on our way (looking for water), we came across a lady (riding an animal), hanging her legs between two water-skins. We asked her, "Where can we get water?" She replied, "Oh ! There is no water." We asked, "how far is your house from the water?" She replied, "A distance of a day and a night travel." We said, "Come on to Allah's Apostle, "She asked, "What is Allah's Apostle (ﷺ) ?" So we brought her to Allah's Apostle (ﷺ) against her will, and she told him what she had told us before and added that she was the mother of orphans. So the Prophet (ﷺ) ordered that her two water-skins be brought and he rubbed the mouths of the water-skins. As we were thirsty, we drank till we quenched our thirst and we were forty men. We also filled all our waterskins and other utensils with water, but we did not water the camels. The waterskin was so full that it was almost about to burst. The Prophet (ﷺ) then said, "Bring what (foodstuff) you have." So some dates and pieces of bread were collected for the lady, and when she went to her people, she said, "I have met either the greatest magician or a prophet as the people claim." So Allah guided the people of that village through that lady. She embraced Islam and they all embraced Islam.