Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3577.
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو افراد تھے۔ حدیبیہ ایک کنواں ہے۔ ہم نے اس سے اتنا پانی نکالا کہ اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ چھوڑا۔ نبی کریم ﷺ کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ آپ نے پانی منگوایا اور کنویں میں پانی کی کلی ڈالی، چنانچہ ہم تھوڑا سا وقت وہاں ٹھہرے ہوں گے(کہ کنواں پانی سے بھر گیا)۔ ہم نے خوب سیر ہوکر وہاں سے پانی پیا اور ہمارے مویشی بھی وہاں سے سیراب ہوکرلوٹے۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں چودہ سوافراد کا ذکر ہے جبکہ حضرت جابر ؓ نے ان کی تعداد پندرہ سوبتائی ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ایک عدددوسرے کی نفی نہیں کرتا۔2۔اس حدیث میں بھی ایک زبردست معجزے کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کے کلی کرنے سے کنواں چشمے کی طرح پھوٹ پڑا اور پانی سے بھر گیا۔پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد معجزے کتب احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔سب سے بڑا معجزہ حسب ذیل ہے:حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ دوران سفرمیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے وضو کے لیے پانی لانے کا حکم دیا۔میں نے پانی تلاش کیا تو نہ ملا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:فلاں انصاری سے پتہ کرو۔۔۔وہ آپ کے لیے ٹھنڈے پانی کا اہتمام کرتا تھا۔میں اس کے پاس گیا تو اس کی مشک کے منہ کے ساتھ پانی کا ایک قطرہ لگا ہواتھا۔اگرمیں اسے لینے کی کوشش کرتا تو وہ بھی خشک ہوجاتا۔بہرحال میں نے وہ قطرہ رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کردیا۔آپ نے اسے لیا اور کچھ پڑھ کر اپنی ہتھیلی پر ملا،پھر مجھے ایک بڑا برتن لانے کو کہا۔میں ایک برتن لے آیا تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو برتن میں رکھ دیا۔ان سے پانی نکلا توآپ نے مجھے فرمایا:’’جابر ؓ ! بسم اللہ پڑھ کر اسے میرے ہاتھوں پر ڈالو۔‘‘ میں نے ایسا کیا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی بہنے لگا،حتی کہ وہ برتن بھر گیا اور اس میں پانی گردش کرنے لگا۔آپ نے مجھے حکم دیا:’’جابر ؓ!لوگوں میں اعلان کردو جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ پوری کرلے۔‘‘ چنانچہ تمام لوگوں نے خوب سیر ہوکرپیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہاتھ نکالا تو وہ برتن پانی سے بھرا ہوا تھا۔(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث:7519(3013)حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:یہ واقعہ تکثیر ماء کے دیگر واقعات سے زیادہ عجیب تر ہے کیونکہ اس میں پانی کی انتہائی کمی اور اس سے استفادہ کرنے والوں کی کثرت کا بیان ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:716/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3444
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3577
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3577
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3577
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو افراد تھے۔ حدیبیہ ایک کنواں ہے۔ ہم نے اس سے اتنا پانی نکالا کہ اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ چھوڑا۔ نبی کریم ﷺ کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ آپ نے پانی منگوایا اور کنویں میں پانی کی کلی ڈالی، چنانچہ ہم تھوڑا سا وقت وہاں ٹھہرے ہوں گے(کہ کنواں پانی سے بھر گیا)۔ ہم نے خوب سیر ہوکر وہاں سے پانی پیا اور ہمارے مویشی بھی وہاں سے سیراب ہوکرلوٹے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں چودہ سوافراد کا ذکر ہے جبکہ حضرت جابر ؓ نے ان کی تعداد پندرہ سوبتائی ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ایک عدددوسرے کی نفی نہیں کرتا۔2۔اس حدیث میں بھی ایک زبردست معجزے کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کے کلی کرنے سے کنواں چشمے کی طرح پھوٹ پڑا اور پانی سے بھر گیا۔پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد معجزے کتب احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔سب سے بڑا معجزہ حسب ذیل ہے:حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ دوران سفرمیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے وضو کے لیے پانی لانے کا حکم دیا۔میں نے پانی تلاش کیا تو نہ ملا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:فلاں انصاری سے پتہ کرو۔۔۔وہ آپ کے لیے ٹھنڈے پانی کا اہتمام کرتا تھا۔میں اس کے پاس گیا تو اس کی مشک کے منہ کے ساتھ پانی کا ایک قطرہ لگا ہواتھا۔اگرمیں اسے لینے کی کوشش کرتا تو وہ بھی خشک ہوجاتا۔بہرحال میں نے وہ قطرہ رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کردیا۔آپ نے اسے لیا اور کچھ پڑھ کر اپنی ہتھیلی پر ملا،پھر مجھے ایک بڑا برتن لانے کو کہا۔میں ایک برتن لے آیا تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو برتن میں رکھ دیا۔ان سے پانی نکلا توآپ نے مجھے فرمایا:’’جابر ؓ ! بسم اللہ پڑھ کر اسے میرے ہاتھوں پر ڈالو۔‘‘ میں نے ایسا کیا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی بہنے لگا،حتی کہ وہ برتن بھر گیا اور اس میں پانی گردش کرنے لگا۔آپ نے مجھے حکم دیا:’’جابر ؓ!لوگوں میں اعلان کردو جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ پوری کرلے۔‘‘ چنانچہ تمام لوگوں نے خوب سیر ہوکرپیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہاتھ نکالا تو وہ برتن پانی سے بھرا ہوا تھا۔(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث:7519(3013)حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:یہ واقعہ تکثیر ماء کے دیگر واقعات سے زیادہ عجیب تر ہے کیونکہ اس میں پانی کی انتہائی کمی اور اس سے استفادہ کرنے والوں کی کثرت کا بیان ہے۔واللہ أعلم۔(فتح الباري:716/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے ابواسحق نے ، ان سے براءبن عازب ؓ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن ہم چودہ سوکی تعداد میں تھے ۔ حدیبیہ ایک کنویں کانام ہے ہم نے اس سے اتنا پانی کھینچا کہ اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا (جب رسول کریم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے) اور کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی کی دعا کی اور اس پانی سے کلی کی اور کلی کا پانی کنویں میں ڈال دیا ۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ کنواں پھر پانی سے بھر گیا ۔ ہم بھی اس سے خوب سیر ہوئے اور ہمارے اونٹ بھی سیراب ہوگئے ۔ یا پانی پی کر لوٹے ۔
حدیث حاشیہ:
راوی کوشک ہے کہ ”رویت رکائبنا“ کہا یا ”صدرت رکائبنا“ مفہوم ہر دو کا ایک ہی ہے۔ یہ بھی آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا۔ اسی لیے اس باب کے ذیل اسے ذکر کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA): We were one-thousand-and-four-hundred persons on the day of Al-Hudaibiya (Treaty), and (at) Al-Hudaibiya (there) was a well. We drew out its water not leaving even a single drop. The Prophet (ﷺ) sat at the edge of the well and asked for some water with which he rinsed his mouth and then he threw it out into the well. We stayed for a short while and then drew water from the well and quenched our thirst, and even our riding animals drank water to their satisfaction.