Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3579.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم تو معجزات کو باعث برکت خیال کرتے تھے اور تم سمجھتے ہو کہ(کفارکو) ڈرانے کے لیے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ پانی کم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’کچھ بچا ہوا پانی تلاش کرلاؤ۔ ‘‘چنانچہ لوگ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ آپ نے اپنا دست مبارک پانی میں ڈال دیا اور اس کے بعد فرمایا: ’’مبارک پانی کی طرف آؤ اور برکت تو اللہ طرف سے ہے۔ ‘‘میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی انگشتہائے مبارک سے پانی پھوٹ رہا تھا۔ اور(بسا اوقات) کھانا کھاتے وقت ہم کھانے میں سے تسبیح کی آواز سنتے تھے۔
تشریح:
1۔صحابہ کرام ؓ کو کھانے کی تسبیح سنانا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا ویسے تو قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ ’’اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ (بني إسرائیل:44/17)ایک ددفعہ رسول اللہ ﷺ نے سات کنکریاں لیں تو انھوں نے آپ کے ہاتھ میں بہ آواز بلند تسبیح کہی پھر آپ نے انھیں حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ میں رکھ دیا پھر حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ میں رکھا انھوں نے ہر ایک ہاتھ میں تسبیح کہی۔(المعجم الأوسط للطبراني:59/2، طبع دارالحرمین و فتح الباری:723/6)2۔قرآن کریم میں ہے ۔’’معجزے تو ہم صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں ۔‘‘ (بني إسرائیل:59/17)اس آیت سے کچھ لوگوں نے موقف اختیارکیا کہ ہر نشانی ڈرانے کے لیے ہوتی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ان کی تردید کی کہ ہر نشانی کو ڈرانے کے لیے سمجھنا محل نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کچھ نشانیاں واقعی ڈرانے کے لیے ہیں اور کچھ نشانیاں مثلاً:کھانے پینے میں برکت یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور اس کی عنایت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3446
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3579
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3579
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3579
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم تو معجزات کو باعث برکت خیال کرتے تھے اور تم سمجھتے ہو کہ(کفارکو) ڈرانے کے لیے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ پانی کم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’کچھ بچا ہوا پانی تلاش کرلاؤ۔ ‘‘چنانچہ لوگ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ آپ نے اپنا دست مبارک پانی میں ڈال دیا اور اس کے بعد فرمایا: ’’مبارک پانی کی طرف آؤ اور برکت تو اللہ طرف سے ہے۔ ‘‘میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی انگشتہائے مبارک سے پانی پھوٹ رہا تھا۔ اور(بسا اوقات) کھانا کھاتے وقت ہم کھانے میں سے تسبیح کی آواز سنتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔صحابہ کرام ؓ کو کھانے کی تسبیح سنانا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا ویسے تو قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ ’’اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ (بني إسرائیل:44/17)ایک ددفعہ رسول اللہ ﷺ نے سات کنکریاں لیں تو انھوں نے آپ کے ہاتھ میں بہ آواز بلند تسبیح کہی پھر آپ نے انھیں حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ میں رکھ دیا پھر حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ میں رکھا انھوں نے ہر ایک ہاتھ میں تسبیح کہی۔(المعجم الأوسط للطبراني:59/2، طبع دارالحرمین و فتح الباری:723/6)2۔قرآن کریم میں ہے ۔’’معجزے تو ہم صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں ۔‘‘ (بني إسرائیل:59/17)اس آیت سے کچھ لوگوں نے موقف اختیارکیا کہ ہر نشانی ڈرانے کے لیے ہوتی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ان کی تردید کی کہ ہر نشانی کو ڈرانے کے لیے سمجھنا محل نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کچھ نشانیاں واقعی ڈرانے کے لیے ہیں اور کچھ نشانیاں مثلاً:کھانے پینے میں برکت یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور اس کی عنایت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اورتم لوگ ان سے ڈرتے ہو ۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہوگیا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو ۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے ۔ آپ نے اپناہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا : برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا اور ہم تو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کھاتے وقت کھانے کے تسبیح سنتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا کہ صحابہ کرام اپنے کانوں سے کھانے وغیرہ میں سے تسبیح کی آواز سن لیتے تھے، ورنہ ہر چیز اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتی ہے، جیسا کہ فرمایا ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾”ہرچیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے۔“ امام بیھقی ؒ نے دلائل میں نکالا ہے کہ آپ نے سات کنکریاں لیں ، انہوں نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح کہی ان کی آواز سنائی دی۔ پھر آپ نے ان کو ابوبکر ؓ کے ہاتھوں میں رکھ دیا، پھر عمر ؓ کے ہاتھ میں پھر عثمان ؓ کے ہاتھ میں ، ہر ایک کے ہاتھ میں انہوں نے تسبیح کہی۔ حافظ نے کہا شق قمر تو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور لکڑی کا رونا بھی صحیح حدیث سے اور کنکریوں کی تسبیح صرف ایک طریق سے جو ضعیف ہے۔ بہر حال یہ رسول کریم ﷺکے معجزات ہیں جو جس طرح ثابت ہیں اسی طرح ان پر ایمان لانا ضروری ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تم ہر نشانی اور خرق عادت کو تخویف سمجھتے ہو۔ یہ تمہاری غلطی ہے۔ اللہ کی بعض نشانیاں تخویف کی بھی ہوتی ہیں جیسے گہن و غیرہ اور بعض نشانیاں جیسے کھانے پینے میں برکت یہ تو عنایت اور فضل الٰہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): We used to consider miracles as Allah's Blessings, but you people consider them to be a warning. Once we were with Allah's Apostle (ﷺ) on a journey, and we ran short of water. He said, "Bring the water remaining with you." The people brought a utensil containing a little water. He placed his hand in it and said, "Come to the blessed water, and the Blessing is from Allah." I saw the water flowing from among the fingers of Allah's Apostle (ﷺ) , and no doubt, we heard the meal glorifying Allah, when it was being eaten (by him).