Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3582.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ کو قحط سالی نے آلیا۔ چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ !گھوڑے اور بکریاں ہلاک ہوگئیں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آسمان شیشے کی طرح بالکل صاف تھا۔ اچانک ہوا چلی، بادل پیدا ہوئے، پھر وہ گھنے ہوگئے۔ اس کے بعد آسمان نے اپنا منہ کھول دیا، چنانچہ ہم پانی میں بھیگتے ہوئے باہر نکلے حتیٰ کہ بمشکل اپنے گھروں میں آئے۔ دوسرے جمعہ تک بارش ہوئی۔ پھر وہ شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ !اب تو مکانات گرنے لگے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! یہ بارش ہمارے اردگرد ہو، ہم پر نہ ہو۔‘‘حضرت انس ؓ نے کہا: میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت بادل پھٹ کرمدینہ کے اردگرد ایسے ہوگیا گویا تاج ہے۔
تشریح:
1۔جس شخص نے کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تھی وہ خارجہ بن حصن فزاری ؓ تھے ۔2۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ ہے کہ جب آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائی تو آسمان شیشے کی طرح صاف تھا ۔بادل کا نا م ونشان تک نہ تھا اچانک پہاڑوں کی طرح بادل آئےموسلا دھار بارش ہوئی اور یکسر قحط سالی کا سماں خوشحالی سے بدل گیا وادی قتادہ ایک مہینہ پانی سے بہتی رہی ہر طرف سے سیرابی اور پیدا وار ہونے کے پیغام آئے پھر آپ نے آئندہ جمعہ دعا فرمائی اے اللہ !اب مدینہ طیبہ پر نہیں بلکہ چھوٹےبڑے پہاڑوں ٹیلوں ،جنگلات اور ندیوں پر بارش برسا۔آپ جدھر اشارہ فرماتے ادھرسے بادل چھٹ جاتا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے کے بعد فوراً بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث:101)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3449
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3582
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3582
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3582
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ کو قحط سالی نے آلیا۔ چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ !گھوڑے اور بکریاں ہلاک ہوگئیں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آسمان شیشے کی طرح بالکل صاف تھا۔ اچانک ہوا چلی، بادل پیدا ہوئے، پھر وہ گھنے ہوگئے۔ اس کے بعد آسمان نے اپنا منہ کھول دیا، چنانچہ ہم پانی میں بھیگتے ہوئے باہر نکلے حتیٰ کہ بمشکل اپنے گھروں میں آئے۔ دوسرے جمعہ تک بارش ہوئی۔ پھر وہ شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ !اب تو مکانات گرنے لگے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! یہ بارش ہمارے اردگرد ہو، ہم پر نہ ہو۔‘‘حضرت انس ؓ نے کہا: میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت بادل پھٹ کرمدینہ کے اردگرد ایسے ہوگیا گویا تاج ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔جس شخص نے کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تھی وہ خارجہ بن حصن فزاری ؓ تھے ۔2۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ ہے کہ جب آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائی تو آسمان شیشے کی طرح صاف تھا ۔بادل کا نا م ونشان تک نہ تھا اچانک پہاڑوں کی طرح بادل آئےموسلا دھار بارش ہوئی اور یکسر قحط سالی کا سماں خوشحالی سے بدل گیا وادی قتادہ ایک مہینہ پانی سے بہتی رہی ہر طرف سے سیرابی اور پیدا وار ہونے کے پیغام آئے پھر آپ نے آئندہ جمعہ دعا فرمائی اے اللہ !اب مدینہ طیبہ پر نہیں بلکہ چھوٹےبڑے پہاڑوں ٹیلوں ،جنگلات اور ندیوں پر بارش برسا۔آپ جدھر اشارہ فرماتے ادھرسے بادل چھٹ جاتا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے کے بعد فوراً بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث:101)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس ؓ نے اس حدیث کو یونس سے بھی روایت کیا ہے ۔ ان سے ثابت نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا ۔ آپ جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا : یا رسول اللہ ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہوگئے اور بکریاں بھی ہلاک ہوگئیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعاکیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے ۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعاکی ۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح ( بالکل صاف ) تھا ۔ اتنے میں ہواچلی ۔ اس نے ابر کو اٹھایا پھر ابر کے بہت سے ٹکڑے جمع ہوگئے اور آسمان نے گویا اپنے دہانے کھول دیئے ۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے ۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی ۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مکانات گرگئے ۔ دعافرمائےے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے ۔ آنحضرت ﷺ مسکرائے اور فرمایا : اے اللہ ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا ( جہاں اس کی ضرورت ہو ) ہم پر نہ برسا ۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت ابر پھٹ کر مدینہ کے ارد گرسر پیچ کی طرح ہوگیا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Once during the lifetime of Allah's Apostle, the people of Madinah suffered from drought. So while the Prophet (ﷺ) was delivering a sermon on a Friday a man got up saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The horses and sheep have perished. Will you invoke Allah to bless us with rain?" The Prophet (ﷺ) lifted both his hands and invoked. The sky at that time was as clear as glass. Suddenly a wind blew, raising clouds that gathered together, and it started raining heavily. We came out (of the Mosque) wading through the flowing water till we reached our homes. It went on raining till the next Friday, when the same man or some other man stood up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The houses have collapsed; please invoke Allah to withhold the rain." On that the Prophet (ﷺ) smiled and said, "O Allah, (let it rain) around us and not on us." I then looked at the clouds to see them separating forming a sort of a crown round Medina.