Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3586.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ !آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے گا؟انھوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ اسے توڑاجائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ اس لائق ہےکہ کبھی بند نہ ہو۔ ہم نے حضرت حذیفہ سے کہا: کیا حضرت عمر اس دروازے کو جانتے تھے؟حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: ہاں، انھیں ایسے علم تھا جیسے کل سے پہلے آنے والی رات کو یقین ہوتا ہے۔ میں نے انھیں حدیث بیان کی ہے یہ کوئی پہلی نہیں(راوی کہتا ہے کہ)ہمیں اس کے متعلق حضرت حذیفہ ؓ سے سوال کرنے میں ڈر محسوس ہوا تو ہم نے حضرت مسروق سے کہا کہ تم سوال کرو، چنانچہ انھوں نے سوال کیا کہ وہ دروازہ کون ہے؟انھوں نے فرمایا کہ وہ خود حضرت عمر ؓ ہیں۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے امام بخاری ؒنے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے۔2۔ حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر فتنوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے تاکہ ان سے محفوظ رہا جا کسے ۔ صحابہ کرام ؓ میں انھیں رسول اللہ ﷺ کا راز دان کہا جاتا تھا۔ انھوں نے گمان یا اندازے سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی سے معلوم کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہیں گے۔مسلمانوں میں کسی قسم کا فتنہ و فاسد رونما نہیں ہو گا۔ ان کے بعد فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا۔واقعی رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس وقت سے امت مسلمہ تنزلی کا شکار ہے۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے آنے والے حالات کی خبر یں دی ہیں جو بعینہ پوری ہوئیں یہ بھی آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے۔3۔اہل و عیال کے فتنے سے مراد ہے کہ انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے اور ہمسائے کا فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایوں سے بغض حسد رکھتا ہے یا ان پر فخر و مباہات کرتا ہے یا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے۔حدیث میں گھر مال اور ہمسائے کا ذکر ہے اور ان فتنوں کا کفارہ بھی تین چیزیں ہیں چنانچہ نماز اور روزہ فعلی عبادت ہے صدقہ و خیرات مالی عبادت ہے اور امر بالعمروف نہی عن المنکر قولی عبادت ہے یہ تینوں قسم کی عبادات بالترتیب تینوں قسم کی کوتاہیوں کا کفارہ ہیں۔(فتح الباري:739/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3453
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3586
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3586
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3586
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ !آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے گا؟انھوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ اسے توڑاجائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: پھر وہ اس لائق ہےکہ کبھی بند نہ ہو۔ ہم نے حضرت حذیفہ سے کہا: کیا حضرت عمر اس دروازے کو جانتے تھے؟حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: ہاں، انھیں ایسے علم تھا جیسے کل سے پہلے آنے والی رات کو یقین ہوتا ہے۔ میں نے انھیں حدیث بیان کی ہے یہ کوئی پہلی نہیں(راوی کہتا ہے کہ)ہمیں اس کے متعلق حضرت حذیفہ ؓ سے سوال کرنے میں ڈر محسوس ہوا تو ہم نے حضرت مسروق سے کہا کہ تم سوال کرو، چنانچہ انھوں نے سوال کیا کہ وہ دروازہ کون ہے؟انھوں نے فرمایا کہ وہ خود حضرت عمر ؓ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے امام بخاری ؒنے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے۔2۔ حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر فتنوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے تاکہ ان سے محفوظ رہا جا کسے ۔ صحابہ کرام ؓ میں انھیں رسول اللہ ﷺ کا راز دان کہا جاتا تھا۔ انھوں نے گمان یا اندازے سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی سے معلوم کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہیں گے۔مسلمانوں میں کسی قسم کا فتنہ و فاسد رونما نہیں ہو گا۔ ان کے بعد فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا۔واقعی رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس وقت سے امت مسلمہ تنزلی کا شکار ہے۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے آنے والے حالات کی خبر یں دی ہیں جو بعینہ پوری ہوئیں یہ بھی آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے۔3۔اہل و عیال کے فتنے سے مراد ہے کہ انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے اور ہمسائے کا فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایوں سے بغض حسد رکھتا ہے یا ان پر فخر و مباہات کرتا ہے یا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے۔حدیث میں گھر مال اور ہمسائے کا ذکر ہے اور ان فتنوں کا کفارہ بھی تین چیزیں ہیں چنانچہ نماز اور روزہ فعلی عبادت ہے صدقہ و خیرات مالی عبادت ہے اور امر بالعمروف نہی عن المنکر قولی عبادت ہے یہ تینوں قسم کی عبادات بالترتیب تینوں قسم کی کوتاہیوں کا کفارہ ہیں۔(فتح الباري:739/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ( دوسری سند ) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے ، ان سے شعبہ نے ، ان سے سلیمان نے ، انہوں نے ابووائل سے سنا ، وہ حذیفہ ؓ سے بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب ؓ نے پوچھا فتنہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کس کو یاد ہے ؟ حذیفہ ؓ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ۔ عمر ؓ نے کہا پھر بیان کرو (ماشاءاللہ) تم تو بہت جری ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : انسان کی ایک آزمائش (فتنہ) تو اس کے گھر مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ ، نماز ، روزہ ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیس نیکیاں بن جاتی ہیں۔ عمر ؓ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا ، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح (ٹھاٹھیں مارتا) ہوگا ۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے حضرت عمر نے پوچھا وہ دروازہ کھولاجائے گا یا توڑا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑدیا جائے گا ۔ حضرت عمر نے اس پر فرمایاکہ پھر تو بند نہ ہوسکے گا ۔ ہم نے حذیفہ ؓ سے پوچھا : کیا عمر ؓ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے ۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی ۔ ہمیں حضرت حذیفہ ؓ سے (دروازہ کے متعلق) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا ۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہاتو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر ؓ ہی ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث مع شرح اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ اس باب میں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہے کوئی فتنہ اور فساد مسلمانوں میں نہیں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تو آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ زرکشی نے کہا کہ حذیفہ ؓ اگر اس دروازے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات کہتے تو درست ہوتا ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔ ( بلکہ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت بھی فتنہ گروں کے ہاتھوں ہوئی ) راقم کہتا ہے کہ یہ زرکشی کی خوش فہمی ہے۔ فتنوں کا دروازہ تو حضرت عثمان ؓ کی حیات میں کھل گیا تھا پھر وہ دروازہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ حذیفہ ایک جلیل الشان صحابی اور آنحضرت ﷺ کے محرم راز تھے۔ انہوں نے جو امر قرار دیا ، زرکشی کو اس پر اعتراض کرنا زیبا نہیں تھا (وحیدی) اہل ومال کے فتنے سے مراد خداکی یاد سے غافل ہونا اور دل پر غفلت کا پردہ آنا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa (RA): Once 'Umar bin Al-Khattab (RA) said, said, "Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle (ﷺ) regarding the afflictions?" Hudhaifa replied, "I remember what he said exactly." 'Umar said. "Tell (us), you are really a daring man!'' Hudhaifa said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'A man's afflictions (i.e. wrong deeds) concerning his relation to his family, his property and his neighbors are expiated by his prayers, giving in charity and enjoining what is good and forbidding what is evil.' " 'Umar said, "I don't mean these afflictions but the afflictions that will be heaving up and down like waves of the sea." Hudhaifa replied, "O chief of the believers! You need not fear those (afflictions) as there is a closed door between you and them." 'Umar asked, "Will that door be opened or broken?" Hudhaifa replied, "No, it will be broken." 'Umar said, "Then it is very likely that the door will not be closed again." Later on the people asked Hudhaifa, "Did 'Umar know what that door meant?" He said. "Yes, 'Umar knew it as everyone knows that there will be night before the tomorrow morning. I narrated to 'Umar an authentic narration, not lies." We dared not ask Hudhaifa; therefore we requested Masruq who asked him, "What does the door stand for?" He said, "Umar."