Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3615.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر ؓ میرے والد کے گھرتشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر انھوں نے(میرےوالد محترم)حضرت عازب سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہمراہ کجاوہ اٹھایا۔ جب میرے ابو ان سے اس کی قیمت لینے گئے تو ان سے میرے والد نے کہا: ابو بکر ؓ !مجھے بتائیں، جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کر کےگئے تھےتو تمھارے ساتھ کیا بیتی تھی؟حضرت ابو بکر نے فرمایا: ہم رات بھر چلتے رہے، اگلے دن بھی سفر جاری رکھا حتی کہ دوپہر ہو گئی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ ادھر سے کوئی آدمی گزرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس دوران میں ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے نیچے دھوپ نہ تھی بلکہ سایہ تھا، لہٰذا ہم نے وہاں پڑاؤکیا۔ میں نے خود نبی ﷺ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جگہ ہموار کی، وہاں پوستین بچھائی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ یہاں آرام فرمائیں، میں آپ کے آس پاس کی نگرانی کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ سو گئے اور میں آس پاس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائےمیں لانا چاہتا تھا جس کے نیچے ہم نے پڑاؤکیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: برخوردار!تو کس قبیلے سے ہے؟اس نے کہا: میں مدینہ طیبہ یا مکہ مکرمہ کے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے اس سے کہا: کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا تو ہمارے لیے دودھ نکال سکتا ہے؟اس نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ ایک بکری پکڑلایا تو میں نے اس سے کہا کہ اس کےتھنوں کو مٹی، بالوں اور دوسری الائشوں سے صاف کرو۔ ۔ ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، انھوں نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارکر تھن جھاڑنے کی صورت بیان کی۔ ۔ ۔ بہر حال اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میرےپاس ایک چھاگل تھی جو میں مکہ سے نبی ﷺ کے لیے لایا تھا۔ آپ اس سے پانی پیتے اور وضو بھی کرتے تھے۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ کو بیدار کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے دودھ میں کچھ پانی ڈالا تو وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اسے نوش فرمائیں، چنانچہ آپ نے وہ دودھ پیا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اب چلنے کا وقت ہو چکا ہے، چنانچہ ہم سورج ڈھلنےکے بعد وہاں سے چل پڑے۔ دوسری طرف سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا وہاں آپہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کوئی ہمارے پیچھے آرہا ہے آپ نے فرمایا: ’’فکر مت کرو، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس کے لیے بدعا کی تو اس کا گھوڑااس سمیت پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ زہیر راوی نے کہا: سخت زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ سراقہ نے کہا: میراخیال ہے کہ آپ دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اب آپ دونوں میرے لیے دعا کیجیے۔ اللہ کی قسم!آپ سے میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کو تلاش کرنے والوں کو واپس کردوں گا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی تو اس نے(زمین سے)نجات حاصل کی۔ پھر وہ جس سے ملتااسے کہتا کہ میں تلاش کر چکا ہوں، ادھرکوئی نہیں، وہ ہر ملنے والے کو یہ کہہ کر واپس لوٹا دیتا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا۔
تشریح:
1۔سفر ہجرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا جن کی تفاصیل مختلف روایات میں بیان ہوئی ہے۔ اس حدیث میں بھی آپ کے کچھ معجزات کاذکر ہے جن سے آپ کی صداقت اور حقانیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔اہل بصیرت کے لیے ایک ذرہ بھر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں البتہ عقل کے اندھوں کے لیے ایے ہزاروں ،لاکھوں نشانات بھی ناکافی ہیں۔2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تابع کو اپنے متبوع کی خد مت کرنی چاہیے۔3۔دوران میں سفر چھاگل یا کوزہ وغیرہ پاس رکھنا چاہیے تاکہ پانی پینے اور وضو کرنے میں آسانی رہے نیز اس میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی فضیلت ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی عظیم شخصیت محو استرحت ہو تو اس کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔4۔اس حدیث میں بکریوں کے چرواہے کے متعلق شک ہے کہ مدینے یا مکے کا رہنے والا تھا۔ درحقیقت وہ مکہ مکرمہ کے ایک قریشی کا غلام تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ یثرب کے نام سے مشہور تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کے بعد اسے مدینہ کا نام دیا گیا نیز اتنی دور سے مسافت طے کر کے بکریاں چرانے کے لیے جانا بہت مشکل ہے ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ کسی قریشی کا غلام تھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا نہیں تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ میں کوئی قریشی رہائش پذیر نہیں تھا۔(عمدة القاري:351/11)ہجرت سے متعلقہ دیگر واقعات کی تفصیل ہم حدیث 3906کے تحت بیان کریں گے۔ إن شاء اللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3480
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3615
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3615
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3615
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر ؓ میرے والد کے گھرتشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر انھوں نے(میرےوالد محترم)حضرت عازب سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہمراہ کجاوہ اٹھایا۔ جب میرے ابو ان سے اس کی قیمت لینے گئے تو ان سے میرے والد نے کہا: ابو بکر ؓ !مجھے بتائیں، جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کر کےگئے تھےتو تمھارے ساتھ کیا بیتی تھی؟حضرت ابو بکر نے فرمایا: ہم رات بھر چلتے رہے، اگلے دن بھی سفر جاری رکھا حتی کہ دوپہر ہو گئی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ ادھر سے کوئی آدمی گزرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس دوران میں ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے نیچے دھوپ نہ تھی بلکہ سایہ تھا، لہٰذا ہم نے وہاں پڑاؤکیا۔ میں نے خود نبی ﷺ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جگہ ہموار کی، وہاں پوستین بچھائی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ یہاں آرام فرمائیں، میں آپ کے آس پاس کی نگرانی کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ سو گئے اور میں آس پاس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائےمیں لانا چاہتا تھا جس کے نیچے ہم نے پڑاؤکیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: برخوردار!تو کس قبیلے سے ہے؟اس نے کہا: میں مدینہ طیبہ یا مکہ مکرمہ کے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے اس سے کہا: کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا تو ہمارے لیے دودھ نکال سکتا ہے؟اس نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ ایک بکری پکڑلایا تو میں نے اس سے کہا کہ اس کےتھنوں کو مٹی، بالوں اور دوسری الائشوں سے صاف کرو۔ ۔ ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، انھوں نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارکر تھن جھاڑنے کی صورت بیان کی۔ ۔ ۔ بہر حال اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میرےپاس ایک چھاگل تھی جو میں مکہ سے نبی ﷺ کے لیے لایا تھا۔ آپ اس سے پانی پیتے اور وضو بھی کرتے تھے۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ کو بیدار کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے دودھ میں کچھ پانی ڈالا تو وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اسے نوش فرمائیں، چنانچہ آپ نے وہ دودھ پیا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اب چلنے کا وقت ہو چکا ہے، چنانچہ ہم سورج ڈھلنےکے بعد وہاں سے چل پڑے۔ دوسری طرف سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا وہاں آپہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کوئی ہمارے پیچھے آرہا ہے آپ نے فرمایا: ’’فکر مت کرو، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس کے لیے بدعا کی تو اس کا گھوڑااس سمیت پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ زہیر راوی نے کہا: سخت زمین میں دھنس گیا۔ ۔ ۔ سراقہ نے کہا: میراخیال ہے کہ آپ دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اب آپ دونوں میرے لیے دعا کیجیے۔ اللہ کی قسم!آپ سے میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کو تلاش کرنے والوں کو واپس کردوں گا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی تو اس نے(زمین سے)نجات حاصل کی۔ پھر وہ جس سے ملتااسے کہتا کہ میں تلاش کر چکا ہوں، ادھرکوئی نہیں، وہ ہر ملنے والے کو یہ کہہ کر واپس لوٹا دیتا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔سفر ہجرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا جن کی تفاصیل مختلف روایات میں بیان ہوئی ہے۔ اس حدیث میں بھی آپ کے کچھ معجزات کاذکر ہے جن سے آپ کی صداقت اور حقانیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔اہل بصیرت کے لیے ایک ذرہ بھر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں البتہ عقل کے اندھوں کے لیے ایے ہزاروں ،لاکھوں نشانات بھی ناکافی ہیں۔2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تابع کو اپنے متبوع کی خد مت کرنی چاہیے۔3۔دوران میں سفر چھاگل یا کوزہ وغیرہ پاس رکھنا چاہیے تاکہ پانی پینے اور وضو کرنے میں آسانی رہے نیز اس میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی فضیلت ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی عظیم شخصیت محو استرحت ہو تو اس کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔4۔اس حدیث میں بکریوں کے چرواہے کے متعلق شک ہے کہ مدینے یا مکے کا رہنے والا تھا۔ درحقیقت وہ مکہ مکرمہ کے ایک قریشی کا غلام تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ یثرب کے نام سے مشہور تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کے بعد اسے مدینہ کا نام دیا گیا نیز اتنی دور سے مسافت طے کر کے بکریاں چرانے کے لیے جانا بہت مشکل ہے ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ کسی قریشی کا غلام تھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا نہیں تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ میں کوئی قریشی رہائش پذیر نہیں تھا۔(عمدة القاري:351/11)ہجرت سے متعلقہ دیگر واقعات کی تفصیل ہم حدیث 3906کے تحت بیان کریں گے۔ إن شاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے احمد بن یزید بن ابراہیم ابوالحسن حرانی نے ، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے ، کہا ہم سے ابواسحق نے بیان کیا اورا نہوں نے براءبن عازب ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ میرے والد کے پاس ان کے گھرآئے اور ان سے ایک پالان خریدا ۔ پھرا نہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کے ذریعہ اسے میرے ساتھ بھیج دو ، حضرت براءؓ نے بیان کیا چنانچہ میں اس کجاوے کو اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا اور میرے والد اس کی قیمت کے روپے پر کھوانے لگے ۔ میرے والد نے ان سے پوچھا اے ابوبکر ! مجھے وہ واقعہ سناؤ جب تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار ثور سے ہجرت کی تھی تو آپ دونوں نے وہ وقت کیسے گزارا تھا ؟ اس پر انہوں نے بیان کیا کہ جی ہاں ، رات بھر تو ہم چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی لیکن جب دوپہر کا وقت ہوا اور راستہ بالکل سنسان پڑگیا کہ کوئی بھی آدمی گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی ، اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی ۔ ہم وہاں اتر گئے اور میں نے خود نبی کریم ﷺ کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کردی اور ایک چادر وہاں بچھادی ، پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ یہاں آرام فرمائیں میں نگرانی کروں گا ، آنحضرت ﷺ سوگئے اور میں چاروں طرف حالات دیکھنے کے لیے نکلا ۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا ۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائے میں لانا چاہتا تھا جس کے تلے میں نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا ۔ وہی اس کا بھی ارادہ تھا ، میں نے اس سے پوچھا کہ توکس قبیلے سے ہے ؟ اس نے بتایا کہ مدینہ یا ( راوی نے کہا کہ ) مکہ کے فلاں شخص سے ، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ میں نے پوچھا کیا ہمارے لیے تو دودھ نکال سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ چنانچہ وہ ایک بکری پکڑکے لایا ۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے تھن کو مٹی ، بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کرلے ۔ ابواسحق راوی نے کہا کہ میں نے براءبن عازب ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر تھن کو جھاڑ نے کی صورت بیان کی ۔ اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا ۔ میں نے آنحضرت ﷺ کے لیے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ۔ آپ اس سے پانی پیا کرتے تھے اور وضو بھی کرلیتے تھے ۔ پھر میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا ( آپ سورہے تھے ) میں آپ کو جگانا پسند نہیں کرتا تھا ۔ لیکن بعد میں جب میں آیا تو آپ بیدار ہوچکے تھے ۔ میں نے پہلے دودھ کے برتن پر پانی بہایا جب اس کے نیچے کا حصہ ٹھنڈا ہوگیا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! دودھ پی لیجئے ، انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے دودھ نوش فرمایا جس سے مجھے خوشی حاصل ہوئی ۔ پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ میں نے عرض کیا کہ آگیا ہے ۔ انہوں نے کہا جب سورج ڈھل گیا تو ہم نے کوچ کیا ۔ بعد میں سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا یہیں پہنچا ۔ میں نے کہا : حضور ! اب تویہ ہمارے قریب ہی پہنچ گیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : غم نہ کرو ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ آپ نے پھر اس کے لیے بددعا کی اور اس کا گھوڑا اسے لیے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا ۔ میرا خیال ہے کہ زمین بڑی سخت تھی ۔ یہ شک ( راوی حدیث ) زہیر کو تھا ۔ سراقہ نے کہا : میں سمجھتاہوں کہ آپ لوگوں نے میرے لیے بددعا کی ہے ۔ اگر اب آپ لوگ میرے لیے ( اس مصیبت سے نجات کی ) دعا کردیں تو اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کی تلاش میں آنے والے تمام لوگوں کو واپس لوٹادوں گا ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے پھر دعا کی تو وہ نجات پاگیا ۔ پھر تو جو بھی اسے راستے میں ملتا اس سے وہ کہتا تھا کہ میں بہت تلاش کرچکاہوں ۔ قطعی طورپر وہ ادھر نہیں ہیں ۔ اس طرح جو بھی ملتا اسے وہ واپس اپنے ساتھ لے جاتا ۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ۔
حدیث حاشیہ:
واقعہ ہجرت میں آنحضرت ﷺ سے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا جن کی تفاصیل مختلف روایتوں میں نقل ہوئی ہیں۔ یہاں بھی آپ کے کچھ معجزات کا ذکر ہے جس سے آپ کی صداقت اور حقانیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اہل بصیرت کے لیے آپ کے رسول برحق ہونے میں ایک ذرہ برابر بھی شک وشبہ کرنے کی گنجائش نہیں اور دل کے اندھوں کے لیے ایسے ہزار نشانات بھی ناکافی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA): Abu Bakr (RA) came to my father who was at home and purchased a saddle from him. He said to 'Azib. "Tell your son to carry it with me." So I carried it with him and my father followed us so as to take the price (of the saddle). My father said, "O Abu Bakr! Tell me what happened to you on your night journey with Allah's Apostle (ﷺ) (during Migration)." He said, "Yes, we travelled the whole night and also the next day till midday. when nobody could be seen on the way ( because of the severe heat) . Then there appeared a long rock having shade beneath it, and the sunshine had not come to it yet. So we dismounted there and I levelled a place and covered it with an animal hide or dry grass for the Prophet (ﷺ) to sleep on (for a while). I then said, 'Sleep, O Allah's Apostle, and I will guard you.' So he slept and I went out to guard him. Suddenly I saw a shepherd coming with his sheep to that rock with the same intention we had when we came to it. I asked (him). 'To whom do you belong, O boy?' He replied, 'I belong to a man from Madinah or Makkah.' I said, 'Do your sheep have milk?' He said, 'Yes.' I said, 'Will you milk for us?' He said, 'Yes.' He caught hold of a sheep and I asked him to clean its teat from dust, hairs and dirt. (The sub-narrator said that he saw Al-Bara' striking one of his hands with the other, demonstrating how the shepherd removed the dust.) The shepherd milked a little milk in a wooden container and I had a leather container which I carried for the Prophet (ﷺ) to drink and perform the ablution from. I went to the Prophet, hating to wake him up, but when I reached there, the Prophet (ﷺ) had already awakened; so I poured water over the middle part of the milk container, till the milk was cold. Then I said, 'Drink, O Allah's Apostle! (ﷺ) ' He drank till I was pleased. Then he asked, 'Has the time for our departure come?' I said, 'Yes.' So we departed after midday. Suraqa bin Malik followed us and I said, 'We have been discovered, O Allah's Apostle! (ﷺ) ' He said, Don't grieve for Allah is with us.' The Prophet (ﷺ) invoked evil on him (i.e. Suraqa) and so the legs of his horse sank into the earth up to its belly. (The subnarrator, Zuhair is not sure whether Abu Bakr (RA) said, "(It sank) into solid earth.") Suraqa said, 'I see that you have invoked evil on me. Please invoke good on me, and by Allah, I will cause those who are seeking after you to return.' The Prophet (ﷺ) invoked good on him and he was saved. Then, whenever he met somebody on the way, he would say, 'I have looked for him here in vain.' So he caused whomever he met to return. Thus Suraqa fulfilled his promise."