Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3620.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا: اگر محمد، اپنے بعد خلافت میرے لیے مقرر کردیں تو میں آپ کی پیروی کر لیتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت سےآدمیوں کو لے کر آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکرا تھا، یہاں تک کہ آپ مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس آکر ٹھہرگئے اور فرمایا: ’’اگر تو مجھ سے شاخ کا یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو تیرے حق میں فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر تونے میری اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے گا۔ اور میں تجھے وہی شخص خیال کرتا ہوں جو میں خواب میں دکھایا گیا ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔مسیلمہ کذاب شعبدہ باز قسم کا انسان تھا۔اسے حضرت وحشی ؓ نے خلافت صدیقی میں قتل کیا۔ وہ فرماتے تھے کہ میں نے زمانہ کفر میں خیر المسلمین حضرت حمزہ ؓ کو شہید کیا اور زمانہ اسلام میں شر الکفار مسیلمہ کذاب کو جہنم واصل کیا۔ اسی طرح اسود عنسی کو فیروز دیلمی ؓ نے صنعاء میں قتل کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس کے مرنے کی خبر دی تھی۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ آپ کے بعد دو کذاب ظاہر ہوں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔ آپ کے خبر دینے کے مطابق ان کا ظہور ہوا،ان کے خروج سے مراد ان کی شان و شوکت اور دعوائے نبوت ہے۔3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے۔ سونے سے اشارہ ان کی فریب کاریوں کی طرف ہے کیونکہ سونے کا نام زخرف بھی ہے اس کے معنی ملمع سازی اور فریب کاری ہے۔4۔دو کنگن دو کذاب تھے پھونک مارنے سے ان کا اڑجانا یہ سرعت ہلاکت سے کنایہ ہے کہ یہ لوگ بڑی آسانی سے ہلاک ہو جائیں گے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3485
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3620
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3620
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3620
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا: اگر محمد، اپنے بعد خلافت میرے لیے مقرر کردیں تو میں آپ کی پیروی کر لیتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت سےآدمیوں کو لے کر آیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکرا تھا، یہاں تک کہ آپ مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس آکر ٹھہرگئے اور فرمایا: ’’اگر تو مجھ سے شاخ کا یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو تیرے حق میں فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر تونے میری اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے گا۔ اور میں تجھے وہی شخص خیال کرتا ہوں جو میں خواب میں دکھایا گیا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔مسیلمہ کذاب شعبدہ باز قسم کا انسان تھا۔اسے حضرت وحشی ؓ نے خلافت صدیقی میں قتل کیا۔ وہ فرماتے تھے کہ میں نے زمانہ کفر میں خیر المسلمین حضرت حمزہ ؓ کو شہید کیا اور زمانہ اسلام میں شر الکفار مسیلمہ کذاب کو جہنم واصل کیا۔ اسی طرح اسود عنسی کو فیروز دیلمی ؓ نے صنعاء میں قتل کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس کے مرنے کی خبر دی تھی۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ آپ کے بعد دو کذاب ظاہر ہوں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔ آپ کے خبر دینے کے مطابق ان کا ظہور ہوا،ان کے خروج سے مراد ان کی شان و شوکت اور دعوائے نبوت ہے۔3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے۔ سونے سے اشارہ ان کی فریب کاریوں کی طرف ہے کیونکہ سونے کا نام زخرف بھی ہے اس کے معنی ملمع سازی اور فریب کاری ہے۔4۔دو کنگن دو کذاب تھے پھونک مارنے سے ان کا اڑجانا یہ سرعت ہلاکت سے کنایہ ہے کہ یہ لوگ بڑی آسانی سے ہلاک ہو جائیں گے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبردی ، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے ، ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ میں آیا اور یہ کہنے لگا کہ اگر محمد ( ﷺ ) ’’ امر ‘‘ ( یعنی خلافت ) کو اپنے بعد مجھے سونپ دیں تو میں ان کی اتباع کے لیے تیار ہوں ۔ مسیلمہ اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر مدینہ آیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس ( اسے سمجھانے کے لیے ) تشریف لے گئے ۔ آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس ؓ تھے اور آپ کے ہاتھ میںکھجور کی ایک چھڑی تھی ۔ آپ وہاں ٹھہر گئے جہاں مسیلمہ اپنے آدمیوں کے ساتھ موجود تھا ۔ تو آپ نے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے چھڑی بھی مانگے تو میں تجھے نہیں دے سکتا ( خلافت تو بڑی چیز ہے ) اور پروردگار کی مرضی کو تو ٹال نہیں سکتا اگر تو اسلام سے پیٹھ پھیرے گا تو اللہ تجھ کو تباہ کردے گا ۔ اور میں سمجھتاہوں کہ تو وہی ہے جو مجھے ( خواب میں ) دکھایا گیا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Musailama-al-Kadhdhab (i.e. the liar) came in the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) with many of his people (to Medina) and said, "If Muhammad makes me his successor, I will follow him." Allah's Apostle (ﷺ) went up to him with Thabit bin Qais bin Shams; and Allah's Apostle (ﷺ) was carrying a piece of a date-palm leaf in his hand. He stood before Musailama (and his companions) and said, "If you asked me even this piece (of a leaf), I would not give it to you. You cannot avoid the fate you are destined to, by Allah. If you reject Islam, Allah will destroy you. I think that you are most probably the same person whom I have seen in the dream."