Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3622.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوروں کے درخت ہیں۔ میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ یا ہجر ہے لیکن وہ مدینہ یثرب تھا۔ اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے تلوار کو حرکت دی تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا تو یہ وہ مصیبت تھی جو غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو پیش آئی۔ پھر میں نے اسے دوبارہ حرکت دی تو وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئی اور یہ فتح اور اہل ایمان کا اجتماع تھا جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا، نیز میں نے خواب میں ایک گائے بھی دیکھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ خیر ہے جو اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ گائے سے مراد اہل ایمان اور خیر سے مرادوہ بھلائی تھی جو اللہ تعالیٰ اس کے بعد لے آیا اور سچا بدلہ تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا تھا۔‘‘
تشریح:
1۔امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ بعض روایات میں خواب کے یہ الفاظ ہیں۔’’میں نے خواب میں گائے دیکھی جسے ذبح کیا جا رہا تھا۔‘‘ اس اضافے سے خواب کی تعبیر مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح ہونا غزوہ اُحد میں مسلمانوں کا شہید ہونا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں واللہ خیر کا کلمہ بھی سنا تھا۔اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ثواب بہتر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے غزوہ اُ حد میں شہید ہونے والوں کا معاملہ اچھا کیا کیونکہ ان کے دنیا میں رہنے سے ان کا شہید ہونا بہتر تھا اور "ثواب الصدق"سے مراد غزوہ احد کے بعد آنے والے حالات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بدر ثانیہ کے بعد عنایت فرمائے۔ یعنی اہل ایمان کے دلوں کو ثابت رکھا۔ اہل ایمان کو خبر دی گئی تھی کہ تمھارے مقابلے کے لیے بہت سے کفار جمع ہیں اور انھیں بہت ہراساں کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محفوظ اور مضبوط رکھا اور ان میں ایمان کا استحکام ہوا۔ انھوں نے برجستہ کہا:﴿حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ (آل عمران:173/3) اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن سے مسلمانوں کو ڈرایا گیا تھا وہ خود ہیبت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔(عمدة القاري:258/11)2۔یہ حدیث نبوت کی دلیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سچے خواب کی خبر دی پھر خود ہی اس کی تعمیر فرمائی۔ وہ تعبیر حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ حدیث میں بدر سے مراد موعد بدر یعنی بدر ثانیہ ہے جواحد کے بعد ہوا تھا جس میں لرائی نہیں ہوئی تھی کیونکہ حسب وعدہ مشرکین نہ آئے البتہ مسلمانوں نے وعدہ خلافی نہیں کی بلکہ اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا ۔ صدق سے اسی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ بعد ازاں فتح قریظہ اور فتح خیبر واقع ہوئی۔(فتح الباري:512/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3487
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3622
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3622
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3622
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوروں کے درخت ہیں۔ میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ یا ہجر ہے لیکن وہ مدینہ یثرب تھا۔ اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے تلوار کو حرکت دی تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا تو یہ وہ مصیبت تھی جو غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو پیش آئی۔ پھر میں نے اسے دوبارہ حرکت دی تو وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئی اور یہ فتح اور اہل ایمان کا اجتماع تھا جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا، نیز میں نے خواب میں ایک گائے بھی دیکھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ خیر ہے جو اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ گائے سے مراد اہل ایمان اور خیر سے مرادوہ بھلائی تھی جو اللہ تعالیٰ اس کے بعد لے آیا اور سچا بدلہ تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ بعض روایات میں خواب کے یہ الفاظ ہیں۔’’میں نے خواب میں گائے دیکھی جسے ذبح کیا جا رہا تھا۔‘‘ اس اضافے سے خواب کی تعبیر مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح ہونا غزوہ اُحد میں مسلمانوں کا شہید ہونا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں واللہ خیر کا کلمہ بھی سنا تھا۔اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ثواب بہتر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے غزوہ اُ حد میں شہید ہونے والوں کا معاملہ اچھا کیا کیونکہ ان کے دنیا میں رہنے سے ان کا شہید ہونا بہتر تھا اور "ثواب الصدق"سے مراد غزوہ احد کے بعد آنے والے حالات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بدر ثانیہ کے بعد عنایت فرمائے۔ یعنی اہل ایمان کے دلوں کو ثابت رکھا۔ اہل ایمان کو خبر دی گئی تھی کہ تمھارے مقابلے کے لیے بہت سے کفار جمع ہیں اور انھیں بہت ہراساں کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محفوظ اور مضبوط رکھا اور ان میں ایمان کا استحکام ہوا۔ انھوں نے برجستہ کہا:﴿حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ (آل عمران:173/3) اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن سے مسلمانوں کو ڈرایا گیا تھا وہ خود ہیبت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔(عمدة القاري:258/11)2۔یہ حدیث نبوت کی دلیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سچے خواب کی خبر دی پھر خود ہی اس کی تعمیر فرمائی۔ وہ تعبیر حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ حدیث میں بدر سے مراد موعد بدر یعنی بدر ثانیہ ہے جواحد کے بعد ہوا تھا جس میں لرائی نہیں ہوئی تھی کیونکہ حسب وعدہ مشرکین نہ آئے البتہ مسلمانوں نے وعدہ خلافی نہیں کی بلکہ اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا ۔ صدق سے اسی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ بعد ازاں فتح قریظہ اور فتح خیبر واقع ہوئی۔(فتح الباري:512/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن علاءنے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا ، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے ، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ، میں سمجھتاہوں ( یہ امام بخاری ؒ کا قول ہے کہ ) محمد بن علاءنے یوں کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا تھاکہ میں مکّہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کررہاہوں جہاں کھجور کے باغات ہیں ۔ اس پر میرا ذہن ادھر گیا کہ یہ مقام یمامہ یا ہجرہوگا ۔ لیکن وہ یثرب مدینہ منورہ ہے اور اسی خواب میں میں نے دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو وہ بیچ میں سے ٹوٹ گئی ۔ یہ اس مصیبت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو اٹھانی پڑی تھی ۔ پھر میں نے دوسری مرتبہ اسے ہلایا تو وہ پہلے سے بھی اچھی صورت میں ہوگئی ۔ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح دی اور مسلمان سب اکٹھے ہو گئے۔ میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کا جو کام ہے وہ بہتر ہے ۔ ان گایوں سے ان مسلمانوں کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں شہید کئے گئے اور خیر وبھلائی وہ تھی جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے خیرو سچائی کا بدلہ بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "In a dream I saw myself migrating from Makkah to a place having plenty of date trees. I thought that it was Al-Yamama or Hajar, but it came to be Madinah i.e. Yathrib. In the same dream I saw myself moving a sword and its blade got broken. It came to symbolize the defeat which the Muslims suffered from, on the Day of Uhud. I moved the sword again, and it became normal as before, and that was the symbol of the victory Allah bestowed upon Muslims and their gathering together. I saw cows in my dream, and by Allah, that was a blessing, and they symbolized the believers on the Day of Uhud. And the blessing was the good Allah bestowed upon us and the reward of true belief which Allah gave us after the day of Badr.