باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ ارشاد کہ ”اہل کتاب اس رسول کو اس طرح پہچان رہے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں سے ایک فریق کے لوگ حق کو جانتے ہیں پھر بھی وہ اسے چھپاتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala: "Those to whom We gave the Scripture (Jews and Christians) recognize him (Muhammad (saws)) as they recognize their own sons ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3635.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ چند یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’تم رجم کے متعلق تورات میں کیا پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ہم انھیں رسوا کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے سے عبارت پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اے محمد ﷺ !انھوں نے (عبد اللہ بن سلام ؓ نے) سچ فرمایا ہے۔ تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (بدکاروں )کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس مرد کو دیکھا وہ عورت کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس کے اوپر جھکاپڑتا تھا۔
تشریح:
1۔یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تورات نہیں پڑھی تھی اور نہ اس واقعے سے پہلے اس سے کسی قسم کی واقفیت ہی رکھتے تھے اس کے باوجود آپ نے تورات کے حکم کی طرف اشارہ کیا فرمایا اور آپ کے اشارے کے مطابق تورات میں حکم رجم ظاہر ہوا۔ یہ علامات نبوت کی عظیم ترین دلیل ہے۔2۔دراصل یہودیوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر زانی اور زانیہ کا فیصلہ طلب کرو۔اگر آپ رجم سنائیں تو اس سے صاف انکار کردیا جائے اور اگر کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اسے قبول کر لیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے کوڑوں پر اکتفا کرنے کے متعلق سوال کیا تو ہم کہہ دیں گے کہ تیرے آخر الزمان نبی کے حکم کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ واقعی آپ نبی برحق ہیں اور اس میں ذرابھر بھی شک نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ﴾’’جب ان کے پاس وہ چیز (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )آگئی جسے انھوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کر دیا۔‘‘ (البقرة:89/2)انھوں نے تورات میں پائی جانے والی نشانیوں کے باعث آپ کو اچھی طرح پہچان لیا تھا لیکن محض ضد کی وجہ سے انکار کر دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق قرآن نے صراحت کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ﴾ ’’اور انھوں نے ازراہ ظلم اور تکبر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔‘‘(کہ موسیٰ سچے ہیں)(النمل:14/27)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3498
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3635
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3635
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3635
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا پورا پورا یقین تھا عربوں کا یہ محاورہ ہے کہ "وہ کسی چیز کی سچائی کو ایسا پہچانتا ہے جیسا کہ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے۔"اس کی تائید میں مذکورہ آیت پیش کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ چند یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’تم رجم کے متعلق تورات میں کیا پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ہم انھیں رسوا کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے سے عبارت پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اے محمد ﷺ !انھوں نے (عبد اللہ بن سلام ؓ نے) سچ فرمایا ہے۔ تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (بدکاروں )کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس مرد کو دیکھا وہ عورت کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس کے اوپر جھکاپڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تورات نہیں پڑھی تھی اور نہ اس واقعے سے پہلے اس سے کسی قسم کی واقفیت ہی رکھتے تھے اس کے باوجود آپ نے تورات کے حکم کی طرف اشارہ کیا فرمایا اور آپ کے اشارے کے مطابق تورات میں حکم رجم ظاہر ہوا۔ یہ علامات نبوت کی عظیم ترین دلیل ہے۔2۔دراصل یہودیوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر زانی اور زانیہ کا فیصلہ طلب کرو۔اگر آپ رجم سنائیں تو اس سے صاف انکار کردیا جائے اور اگر کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اسے قبول کر لیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے کوڑوں پر اکتفا کرنے کے متعلق سوال کیا تو ہم کہہ دیں گے کہ تیرے آخر الزمان نبی کے حکم کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ واقعی آپ نبی برحق ہیں اور اس میں ذرابھر بھی شک نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ﴾’’جب ان کے پاس وہ چیز (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )آگئی جسے انھوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کر دیا۔‘‘ (البقرة:89/2)انھوں نے تورات میں پائی جانے والی نشانیوں کے باعث آپ کو اچھی طرح پہچان لیا تھا لیکن محض ضد کی وجہ سے انکار کر دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق قرآن نے صراحت کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ﴾ ’’اور انھوں نے ازراہ ظلم اور تکبر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔‘‘(کہ موسیٰ سچے ہیں)(النمل:14/27)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبردی ، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ یہود ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے ۔ آپ نے ان سے فرمایا : رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے ؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں ۔ اس پرعبداللہ بن سلام ؓ نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو ۔ تو رات میں رجم کا حکم موجود ہے ۔ تورات لاو ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا ۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپالیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا ۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی ۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد ! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا ۔ بے شک تو رات میں رجم کی آیت موجود ہے ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا ۔ یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا ۔ اس کو پتھروں کی مار سے بچاتا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن سلام یہود ؓ کے بہت بڑے عالم تھے، جن کو یہودی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر مسلمان ہوگیے تو یہودی ان کو برا کہنے لگے ۔ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): The Jews came to Allah's Apostle (ﷺ) and told him that a man and a woman from amongst them had committed illegal sexual intercourse. Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "What do you find in the Torah (old Testament) about the legal punishment of Ar-Rajm (stoning)?" They replied, (But) we announce their crime and lash them." Abdullah bin Salam said, "You are telling a lie; Torah contains the order of Rajm." They brought and opened the Torah and one of them solaced his hand on the Verse of Rajm and read the verses preceding and following it. Abdullah bin Salam said to him, "Lift your hand." When he lifted his hand, the Verse of Rajm was written there. They said, "Muhammad has told the truth; the Torah has the Verse of Rajm. The Prophet (ﷺ) then gave the order that both of them should be stoned to death. ('Abdullah bin 'Umar said, "I saw the man leaning over the woman to shelter her from the stones."