Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of the emigrants (i.e., Muhajirin))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوبکر صدیق ؓ یعنی عبداللہ بن ابی قحافہ تیمی ؓ بھی مہاجرین میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحشر) میں ان مہاجرین کا ذکر کیا، ان مفلس مہاجروں کا یہ (خاص طور پر) حق ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے جدا کر دئیے گئے ہیں جو اللہ کا فضل اور رضا مندی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرنے کو آئے ہیں یہی لوگ سچے ہیں۔ اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا «إلا تنصروه فقد نصره الله» ”اگر تم لوگ ان کی (یعنی رسول کی) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو خود اللہ کر چکا ہے۔“ آخر آیت «إن الله معنا» تک۔ عائشہ، ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ نبی کریم ﷺکے ساتھ (ہجرت کے وقت) غار ثور میں رہے تھے۔وہ مسلمان جو کفار مکہ کے ستانے پر اپنا وطن مکہ چھوڑ کر مدینہ جا بسے یہی مسلمان مہاجرین کہلاتے ہیں لفظ ہجرت اسلام کے لئے ترک وطن کرنے کو کہا گیا ہے۔
3652.
حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ دین سے بے پروائی کی وجہ سے ان میں حرص اور لالچ کا غلبہ ہوگا بس یہی ہو گاکہ جس چیز سے ابتدا کریں شہادت سے یا قسم سے، گویا ان دونوں کی وجہ سے ایک دوڑ لگی ہوگی۔ اس کا مصداق دیکھنا ہوگا تو ہماری عدالتوں میں تیار شدہ گواہوں کودیکھ لیاجائے۔ دولت کی لالچ میں وہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم دینے کے لیے ہروقت تیار بیٹھے ہیں، حالانکہ گواہی چشم دید واقعہ اور قسم یقینی امر کی ہوتی ہے لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ تُرِيحُونَ کے معنی شام کو چرانا اور تَسْرَحُونَ کے معنی صبح کو چرانا ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3514
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3652
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3652
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3652
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
مذکورہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو فضیلت اور برتری بیان کی ہے کہ انھوں نے اللہ کی رضاکے لیے اپنا گھر بارچھوڑا،اللہ کی دین کی سربلندی کے لیے انھوں نے تکلیفیں برداشت کیں۔اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے صداقت کے پیکر قراردیاہے،نیز دوسری آیت سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی کہ ایسے کٹھن سفر ہجرت میں انھوں نے آپ کا ساتھ دیا اور اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرکین سے حفاظت کی۔اس مشکل میں کوئی دوسراشخص آپ کے ساتھ شریک نہیں ہے کیونکہ غارثور میں آپ کے علاوہ اور کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ تھا۔اس بات کی شہادت متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے دی ہے جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔
ابوبکر صدیق ؓ یعنی عبداللہ بن ابی قحافہ تیمی ؓ بھی مہاجرین میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحشر) میں ان مہاجرین کا ذکر کیا، ان مفلس مہاجروں کا یہ (خاص طور پر) حق ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے جدا کر دئیے گئے ہیں جو اللہ کا فضل اور رضا مندی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرنے کو آئے ہیں یہی لوگ سچے ہیں۔ اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا «إلا تنصروه فقد نصره الله» ”اگر تم لوگ ان کی (یعنی رسول کی) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو خود اللہ کر چکا ہے۔“ آخر آیت «إن الله معنا» تک۔ عائشہ، ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ نبی کریم ﷺکے ساتھ (ہجرت کے وقت) غار ثور میں رہے تھے۔وہ مسلمان جو کفار مکہ کے ستانے پر اپنا وطن مکہ چھوڑ کر مدینہ جا بسے یہی مسلمان مہاجرین کہلاتے ہیں لفظ ہجرت اسلام کے لئے ترک وطن کرنے کو کہا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ دین سے بے پروائی کی وجہ سے ان میں حرص اور لالچ کا غلبہ ہوگا بس یہی ہو گاکہ جس چیز سے ابتدا کریں شہادت سے یا قسم سے، گویا ان دونوں کی وجہ سے ایک دوڑ لگی ہوگی۔ اس کا مصداق دیکھنا ہوگا تو ہماری عدالتوں میں تیار شدہ گواہوں کودیکھ لیاجائے۔ دولت کی لالچ میں وہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم دینے کے لیے ہروقت تیار بیٹھے ہیں، حالانکہ گواہی چشم دید واقعہ اور قسم یقینی امر کی ہوتی ہے لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ تُرِيحُونَ کے معنی شام کو چرانا اور تَسْرَحُونَ کے معنی صبح کو چرانا ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ان میں سرفہرست ابو بکر عبداللہ بن ابو قحافہ تیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: "ان نادار مہاجرین کا خاص حق ہے(جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیے گئے۔ وہ صرف اللہ کا فضل اور اس کو رضا چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے ہیں۔ یہ لوگ سچے ہیں۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر تم ان(محمد ﷺ ) کی مدد نہیں کروگے تو(اس سے پہلے) اللہ نے ان کی مدد کی تھی۔ ۔حضرت عائشہ ؓ، حضرت ابو سعیدخدری اور حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ (ہجرت کے وقت) نبی کریم ﷺ کے ساتھ غار میں رہے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے ابواسحق نے اور ان سے حضرت براءؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ( ان کے والد ) حضرت عازب ؓ سے ایک پالان تیرہ درہم میں خریدا ۔ پھر ابوبکر ؓ نے عازب ؓ سے کہا کہ براء ( اپنے بیٹے ) سے کہو کہ وہ میرے گھر یہ پالان اٹھا کر پہنچا دیں اس پر حضرت عازب ؓ نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک آپ وہ واقعہ بیان نہ کریں کہ آپ اور رسول اللہ ﷺ ( مکہ سے ہجرت کرنے کے لیے ) کس طرح نکلے تھے حالانکہ مشرکین آپ دونوں کو تلاش بھی کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مکہ سے نکلنے کے بعد ہم رات بھر چلتے رہے اور دن میں بھی سفر جاری رکھا ۔ لیکن جب دوپہر ہوگئی تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی سایہ نظر آجائے اور ہم اس میں کچھ آرام کرسکیں ۔ آخر ایک چٹان دکھائی دی اور میں نے اس کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ سایہ ہے ۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک فرش وہاں بچھا دیا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آپ اب آرام فرمائیں ۔ چنانچہ آپ لیٹ گئے ۔ پھر میں چاروں طرف دیکھتا ہوا نکلا کہ کہیں لوگ ہماری تلاش میں نہ آئے ہوں ۔ پھر مجھ کو بکریوں کا ایک چرواہا دکھائی دیا جو اپنی بکریاں ہانکتا ہوا اسی چٹان کی طرف آرہاتھا ۔ وہ بھی ہماری طرح سایہ کی تلاش میں تھا ۔ میں نے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ لڑکے توکس کا غلام ہے ۔ اس نے قریش کے ایک شخص کانام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا : کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ میں نے کہا : کیا تم دودھ دوہ سکتے ہوں ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا اوراس نے اپنے ریوڑ کی ایک بکری باندھ دی ۔ پھر میرے کہنے پر اس نے اس کے تھن کے غبار کو جھاڑا ۔ اب میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بھی جھاڑ لے ۔ اس نے یوں اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا اور میرے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا ۔ آنحضرت ﷺ کے لیے ایک برتن میں نے پہلے ہی سے ساتھ لے لیا تھا اور اس کے منہ کو کپڑے سے بند کردیا تھا ( اس میں ٹھنڈا پانی تھا ) پھر میں نے دودھ پر وہ پانی ( ٹھنڈا کرنے کے لیے ) ڈالا اتنا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا تو اسے آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ۔ آپ بھی بیدار ہوچکے تھے ۔ میں نے عرض کیا : دودھ پی لیجئے ۔ آپ نے اتنا پیا کہ مجھے خوشی حاصل ہوگئی ، پھر میں نے عرض کیا کہ اب کوچ کا وقت ہوگیا ہے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے ، چلو ۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور مکہ والے ہماری تلاش میں تھے لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا ہم کو کسی نے نہیں پایا ، وہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا ، میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ یارسول اللہ ! ہمارا پیچھا کرنے والا دشمن ہمارے قریب آپہنچا ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : فکر نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔
حدیث حاشیہ:
واقعہ ہجرت حیات نبوی کا ایک اہم واقعہ ہے جس میں آپ کے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا یہاں بھی چند معجزات کا بیان ہوا ہے چنانچہ باب مہاجرین کے فضائل سے متعلق ہے، اس لیے اس میں ہجرت کے ابتدائی واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہی باب اور حدیث کا تعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA): Abu Bakr (RA) bought a (camel) saddle from ' Azib (RA) for thirteen Dirhams. Abu Bakr (RA) said to 'Azib, "Tell Al-Bara' to carry the saddle for me." ' Azib (RA) said, "No, unless you relate to me what happened to you and Allah 's Apostle (ﷺ) when you left Makkah while the pagans were in search of you." Abu Bakr (RA) said, "We left Makkah and we travel led continuously for that night and the following day till it was midday. I looked (around) searching for shade to take as shelter, and suddenly I came across a rock, and found a little shade there. So I cleaned the place and spread a bed for the Prophet (ﷺ) in the shade and said to him, 'Lie down, O Allah's Apostle.' So the Prophet (ﷺ) lay down and I went out, looking around to see if there was any person pursuing us. Suddenly I saw a shepherd driving his sheep towards the rock, seeking what we had already sought from it. I asked him, 'To whom do you belong, O boy?' He said, 'I belong to a man from Quraish.' He named the man and I recognized him. I asked him, 'Is there any milk with your sheep?' He said, 'Yes.' I said, 'Will you then milk (some) for us?' He said, 'Yes.' Then I asked him to tie the legs of one of the sheep and clean its udder, and then ordered him to clean his hands from dust. Then the shepherd cleaned his hands by striking his hands against one another. After doing so, he milked a small amount of milk. I used to keep for Allah's Apostle (ﷺ) a leather water-container, the mouth of which was covered with a piece of cloth. I poured water on the milk container till its lower part was cold. Then I took the milk to the Prophet (ﷺ) whom I found awake. I said to him, 'Drink, O Allah's Apostle.' So he drank till I became pleased. Then I said, 'It is time for us to move, O Allahs Apostle! (ﷺ) ' He said, 'Yes.' So we set out while the people (i.e. Quraish pagans) were searching for us, but none found us except Suraiqa bin Malik bin Jushum who was riding his horse. I said, 'These are our pursuers who have found us. O Allah's Apostle! (ﷺ) ' He said, 'Do not grieve, for Allah is with us."