باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3671.
حضرت محمد ابن حنفیہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی(حضرت علی ؓ)سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سےافضل کون ہیں؟توانھوں نے جواب دیا: حضرت ابوبکر ؓ ۔ میں نے پوچھا: پھر کون؟توا نھوں نے فرمایا: اس کے بعد حضرت عمر ؓ ۔ مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گے تو میں نے کہا: اس کے بعد پھر آپ(افضل) ہیں؟یہ سن کر انھوں نے فرمایا: میں تو صرف عام مسلمانوں جیسا ایک آدمی ہوں۔
تشریح:
1۔محمد ابن حنفیہِ،اپنی والدہ کی طرف منسوب ہیں اور وہ حضرت علی ؓ کے بیٹے ہیں۔ان کی والدہ جنگ یمامہ میں قید ہوکر آئی تھیں۔ممکن ہے کہ ان کے نزدیک حضرت علی حضرت عثمان ؓ سے افضل ہوں،اس لیے انھوں نے حضرت عثمان کے بجائے ان کا نام لے لیا لیکن اہل سنت کا امر پر اتفاق ہے کہ ان حضرات کی خلافت کی ترتیب کے مطابق ان کی فضیلت وبرتری میں بھی ترتیب ہے۔بہرحال شیخین کی فضیلت پر امت کا اتفاق ہے۔حنتین(دونوں دامادوں) کی فضیلت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔بہرحال حضرت علی ؓ کے مذکورہ قول سے جمہور اہل علم نے دلیل لی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں،پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کا نمبر ہے۔2۔محمد ابن حنفیہ کا یہ فرمانا: ’’مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گے‘‘بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو ترتیب تھی وہ عمرفاروق کے بعد عثمان ذوالنورین کا نام ہی تھا،اسی لیے انھوں نے انداز استفسار تبدیل کیا۔3۔حضرت علی ؓ کا یہ کہنا کہ میں عام مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں،تواضع وانکسار پر محمول ہے۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3532
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3671
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3671
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3671
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمد ابن حنفیہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی(حضرت علی ؓ)سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سےافضل کون ہیں؟توانھوں نے جواب دیا: حضرت ابوبکر ؓ ۔ میں نے پوچھا: پھر کون؟توا نھوں نے فرمایا: اس کے بعد حضرت عمر ؓ ۔ مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گے تو میں نے کہا: اس کے بعد پھر آپ(افضل) ہیں؟یہ سن کر انھوں نے فرمایا: میں تو صرف عام مسلمانوں جیسا ایک آدمی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔محمد ابن حنفیہِ،اپنی والدہ کی طرف منسوب ہیں اور وہ حضرت علی ؓ کے بیٹے ہیں۔ان کی والدہ جنگ یمامہ میں قید ہوکر آئی تھیں۔ممکن ہے کہ ان کے نزدیک حضرت علی حضرت عثمان ؓ سے افضل ہوں،اس لیے انھوں نے حضرت عثمان کے بجائے ان کا نام لے لیا لیکن اہل سنت کا امر پر اتفاق ہے کہ ان حضرات کی خلافت کی ترتیب کے مطابق ان کی فضیلت وبرتری میں بھی ترتیب ہے۔بہرحال شیخین کی فضیلت پر امت کا اتفاق ہے۔حنتین(دونوں دامادوں) کی فضیلت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔بہرحال حضرت علی ؓ کے مذکورہ قول سے جمہور اہل علم نے دلیل لی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں،پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کا نمبر ہے۔2۔محمد ابن حنفیہ کا یہ فرمانا: ’’مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گے‘‘بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو ترتیب تھی وہ عمرفاروق کے بعد عثمان ذوالنورین کا نام ہی تھا،اسی لیے انھوں نے انداز استفسار تبدیل کیا۔3۔حضرت علی ؓ کا یہ کہنا کہ میں عام مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں،تواضع وانکسار پر محمول ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، کہا ہم سے جامع بن ابی راشد نے بیان کیا ، کہاہم سے ابویعلی نے بیان کیا ، ان سے محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد ( علی ؓ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر ؓ میں نے پوچھا پھر کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا ، اس کے بعد عمر ؓ ہیں ۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب ( پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد ؟ تو ) کہہ دیں گے کہ عثمان ؓ اس لیے میں نے خود کہا ، اس کے بعد آپ ہیں ؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ کے اس قول سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو حضرت ابوبکر ؓ کو آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے افضل کہتے ہیں، پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کو جیسے جمہور اہل سنت کا قول ہے۔ عبدالرزاق محدث فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے خود شیخین کو اپنے اوپر فضیلت دی ہے لہذا میں بھی فضیلت دیتاہوں ورنہ کبھی فضیلت نہ دیتا، دوسری روایت میں حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ جو کوئی مجھ کو شیخین کے اوپر فضیلت دے میں اس کو مفتری کی حد لگاؤں گا۔ اس سے اُن سُنّی حضرات کو سبق لینا چاہیے جو حضرت علی ؓ کی تفضیل کے قائل ہیں جب کہ خود حضرت علی ؓ ہی ان کو مفتری قرار دے رہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Al-Hanafiya (RA): I asked my father (' Ali Ibn Abi Talib (RA) ), "Who are the best people after Allah's Apostle (ﷺ) ?" He said, "Abu Bakr." I asked, "Who then?" He said, "Then 'Umar. " I was afraid he would say "Uthman, so I said, "Then you?" He said, "I am only an ordinary person.