باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3674.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے اپنے گھر وضو کیا اور باہر نکلتے دل میں کہنے لگے کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ضرور آپ کے ساتھ رہوں گا، چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے کہا: آپ باہر کہیں اس طرف تشریف لے گئے ہیں، لہذا میں آپ کے قدموں کے نشانات پر آپ کے متعلق پوچھتا ہوا روانہ ہوا اور چاہ اریس تک جاپہنچا اور دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ رفع حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کرچکے تو میں آپ کے پاس گیا۔ آپ چاہ اریس، یعنی اس کی منڈیر کے درمیان کنویں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوئے تھے اور ا پنی پنڈلیوں کو کھول کر کنویں میں لٹکا رکھا تھا۔ میں آپ کو سلام کرکے لوٹ آیا اور دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج نبی کریم ﷺ کا دربان بنوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ انھوں نےکہا: ابوبکر ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ میں نے جاکر (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابوبکر اجازت مانگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ان کو آنے دو اور جنت کی بشارت بھی سناؤ۔‘‘ لہذا میں نے واپس آکر ابوبکر ؓ سے کہا: اندر آجایئے اور رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں، چنانچہ ابوبکر ؓ اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب آپ کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے اور انھوں نے بھی اسی طرح ا پنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے جس طرح نبی کریم ﷺ نے لٹکا رکھے تھے اور اپنی پنڈلیاں بھی کھول دیں۔ میں واپس جاکر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا اور اس نے بھی میرے پیچھے آنا تھا۔ میں نے(اپنے دل میں) کہا: اگر اللہ کو فلاں، یعنی میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو ضرور اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی دروازہ ہلارہا ہے۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ اس نے کہا: عمر بن خطاب ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پا س آیا اور آپ کو سلام کرکے گزارش کی کہ حضرت عمرؓ حاضر ہیں اور آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں اجازت دو اور جنت کی بشارت سناؤ۔‘‘ میں نے واپس آکر کہا: اندر آجائیں اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ وہ اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کنویں کی منڈیر پرآپ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے۔ پھرواپس آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور دل میں وہی کہنے لگا کہ اگر اللہ فلاں کے ساتھ بھلائی چاہے گا تو اسے یہاں ضرور لے آئے گا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور دروازے کو حرکت دینے لگا میں نے پوچھا: کون ہے؟اس نے کہا: عثمان بن عفان ہوں۔ میں نے کہا: ٹھہریے۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور انھیں خبردی تو آپ نے فرمایا: ’’انھیں اندرآنے کی اجازت اور جو آزمائش انھیں پہنچے گی، اس کے بدلے میں جنت کی بشارت بھی دے دو۔‘‘ چنانچہ میں آیا اور ان سے کہا کہ آجاؤ اور رسول اللہ ﷺ نے اس مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ حضرت عثمان ؓ بھی اندر آگئے اور انھوں نے منڈیر کو بھرا ہوا دیکھا تو وہ آپ کے سامنے دوسری جانب بیٹھ گئے۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا: میں نے اس طرح بیٹھنے سے ان کی قبروں کی جگہ مراد لی ہے۔
تشریح:
1۔اریس،مدینہ طیبہ ایک مشہور باغ ہے جو قباء کے قریب واقع ہے۔اسی کنویں میں رسول اللہ ﷺ کی وہ انگوٹھی گری جسے حضرت عثمان ؓ نے پہن رکھا تھا۔2۔اس حدیث میں خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کا واضح بیان ہے اور ان میں حضرت ابوبکر ؓ افضل ہیں کیونکہ ان کو جنت کی بشارت پہلے دی گئی جبکہ ان کی نشست بھی رسول اللہ ﷺکے دائیں جانب تھی۔ایک روایت کے مطابق جب حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ کچھ دیر خاموش رہے ،پر انھیں اندر آنے کی اجازت اور مصیبت آنے پر جنت کی بشارت دی۔(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3695) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بشارت سن کر اللہ کا شکر اد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے:اللہ المستعان۔اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق واضح پیش گوئی ہے کہ وہ ایک سنگین فتنے کی زد میں آئیں گے۔مسند احمد میں صراحت ہے کہ آپ کو ظلم کے طور پر شہید کیا جائے گا۔ (مسند أحمد:115/2) چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔3۔حضرت سعید بن مسیب کی کمال دامائی تھی ،حقیقت میں ایسا ہوا ہے۔حضرت ابوبکرؓ تورسول اللہﷺکے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمان ؓ آپ کے سامے بقیع غرقد میں ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓآپ کے بائیں جانب ہوں گے کیونکہ ایسا امرواقعہ کے خلاف ہے،چنانچہ انھوں نے ایک دوسری روایت میں وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ شیخین کی قبریں اکٹھی اور حضرت عثمان ؓ کی قبر الگ ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7097)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3535
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3674
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3674
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3674
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے اپنے گھر وضو کیا اور باہر نکلتے دل میں کہنے لگے کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ضرور آپ کے ساتھ رہوں گا، چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے کہا: آپ باہر کہیں اس طرف تشریف لے گئے ہیں، لہذا میں آپ کے قدموں کے نشانات پر آپ کے متعلق پوچھتا ہوا روانہ ہوا اور چاہ اریس تک جاپہنچا اور دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ رفع حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کرچکے تو میں آپ کے پاس گیا۔ آپ چاہ اریس، یعنی اس کی منڈیر کے درمیان کنویں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوئے تھے اور ا پنی پنڈلیوں کو کھول کر کنویں میں لٹکا رکھا تھا۔ میں آپ کو سلام کرکے لوٹ آیا اور دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج نبی کریم ﷺ کا دربان بنوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ انھوں نےکہا: ابوبکر ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ میں نے جاکر (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابوبکر اجازت مانگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ان کو آنے دو اور جنت کی بشارت بھی سناؤ۔‘‘ لہذا میں نے واپس آکر ابوبکر ؓ سے کہا: اندر آجایئے اور رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں، چنانچہ ابوبکر ؓ اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب آپ کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے اور انھوں نے بھی اسی طرح ا پنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے جس طرح نبی کریم ﷺ نے لٹکا رکھے تھے اور اپنی پنڈلیاں بھی کھول دیں۔ میں واپس جاکر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا اور اس نے بھی میرے پیچھے آنا تھا۔ میں نے(اپنے دل میں) کہا: اگر اللہ کو فلاں، یعنی میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو ضرور اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی دروازہ ہلارہا ہے۔ میں نے پوچھا: کون ہے؟ اس نے کہا: عمر بن خطاب ہوں۔ میں نے کہا: ذرا ٹھہریے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پا س آیا اور آپ کو سلام کرکے گزارش کی کہ حضرت عمرؓ حاضر ہیں اور آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں اجازت دو اور جنت کی بشارت سناؤ۔‘‘ میں نے واپس آکر کہا: اندر آجائیں اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ وہ اندر آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کنویں کی منڈیر پرآپ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکادیے۔ پھرواپس آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور دل میں وہی کہنے لگا کہ اگر اللہ فلاں کے ساتھ بھلائی چاہے گا تو اسے یہاں ضرور لے آئے گا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور دروازے کو حرکت دینے لگا میں نے پوچھا: کون ہے؟اس نے کہا: عثمان بن عفان ہوں۔ میں نے کہا: ٹھہریے۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور انھیں خبردی تو آپ نے فرمایا: ’’انھیں اندرآنے کی اجازت اور جو آزمائش انھیں پہنچے گی، اس کے بدلے میں جنت کی بشارت بھی دے دو۔‘‘ چنانچہ میں آیا اور ان سے کہا کہ آجاؤ اور رسول اللہ ﷺ نے اس مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ حضرت عثمان ؓ بھی اندر آگئے اور انھوں نے منڈیر کو بھرا ہوا دیکھا تو وہ آپ کے سامنے دوسری جانب بیٹھ گئے۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا: میں نے اس طرح بیٹھنے سے ان کی قبروں کی جگہ مراد لی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اریس،مدینہ طیبہ ایک مشہور باغ ہے جو قباء کے قریب واقع ہے۔اسی کنویں میں رسول اللہ ﷺ کی وہ انگوٹھی گری جسے حضرت عثمان ؓ نے پہن رکھا تھا۔2۔اس حدیث میں خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کا واضح بیان ہے اور ان میں حضرت ابوبکر ؓ افضل ہیں کیونکہ ان کو جنت کی بشارت پہلے دی گئی جبکہ ان کی نشست بھی رسول اللہ ﷺکے دائیں جانب تھی۔ایک روایت کے مطابق جب حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ کچھ دیر خاموش رہے ،پر انھیں اندر آنے کی اجازت اور مصیبت آنے پر جنت کی بشارت دی۔(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3695) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بشارت سن کر اللہ کا شکر اد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے:اللہ المستعان۔اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق واضح پیش گوئی ہے کہ وہ ایک سنگین فتنے کی زد میں آئیں گے۔مسند احمد میں صراحت ہے کہ آپ کو ظلم کے طور پر شہید کیا جائے گا۔ (مسند أحمد:115/2) چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔3۔حضرت سعید بن مسیب کی کمال دامائی تھی ،حقیقت میں ایسا ہوا ہے۔حضرت ابوبکرؓ تورسول اللہﷺکے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمان ؓ آپ کے سامے بقیع غرقد میں ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓآپ کے بائیں جانب ہوں گے کیونکہ ایسا امرواقعہ کے خلاف ہے،چنانچہ انھوں نے ایک دوسری روایت میں وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ شیخین کی قبریں اکٹھی اور حضرت عثمان ؓ کی قبر الگ ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7097)
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالحسن محمد بن مسکین نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حسان نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا ، ان سے شریک بن ابی نمر نے ، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو ابوموسیٰ اشعری ؓ نے خبردی کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ حضور ﷺ تو تشریف لے جاچکے ہیں اور آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں ۔ چنانچہ میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آ پ کے پیچھے پیچھے نکلا اور آخر میں نے دیکھا کہ آپ ( قبا کے قریب ) بئر اریس میں داخل ہورہے ہیں ، میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا ۔ جب آپ قضاءحاجت کرچکے اور آپ نے وضو بھی کرلیا تو میں آپ کے پاس گیا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئر اریس ( اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں ، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں ۔ میں نے آپ کو سلام کیااور پھر واپس آکر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا ۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ ﷺ کا دربان رہوں گا ۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہرجائےے ۔ پھر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت آپ سے چاہتے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی ۔ میں دروازہ پر آیا اور حضرت ابوبکر ؓ سے میں نے کہا کہ اندر تشریف لے جائےے اور رسول کریم ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی مینڈھ پر آنحضرت ﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکالیے ۔ جس طرح آنحضرت ﷺ لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا تھا ۔ پھر میں واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا ۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا ، کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبردے دیتا ۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی اور انہیں یہاں پہنچا دیتا ۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ کہا کہ عمر بن خطاب ؓ۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائےے ، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب ؓ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچادو ، میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائےے اور آپ کو رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسی مینڈھ پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکالیے ۔ میں پھر دروازے پر آکر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں ( ان کے بھائی ) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچادے گا ، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی ، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ بولے کہ عثمان بن عفان ، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائےے ، میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو ان کی اطلاع دی ۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر جو انہیں پہنچے گی جنت کی بشارت پہنچادو ۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائےے ۔ حضور اکرم ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے ، ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی ۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترہ پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آنحضرت ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیاکہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے ( کہ اسی طرح بنیں گی)۔
حدیث حاشیہ:
یہ سعید بن مسیب کی کمال دانائی تھی حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر اور عمر ؓ تو آنحضرت ﷺ کے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمانؓ آپ کے سامنے بقیع غرقد میں۔ سعید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ابوبکر وعمر ؓ آپ کے دائیں بائیں دفن ہوں گے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابوبکرؓکی قبر آنحضرتﷺکی بائیں طرف ہے اور حضرت عمر ؓ کی قبر حضرت ابوبکر کے بائیں طرف ہے۔ آنحضرت ﷺ کی ان مبارک نشانیوں کی بنا پر متعلقہ جملہ حضرات صحابہ کرامؓ کا جنتی ہونا یقینی امر ہے۔ پھر بھی امت میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو حضرات شیخین کرام کی توہین کرتا ہے، اس گروہ سے اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ تاریخ ماضی کے اوراق پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، حضرت عثمان غنی ؓکی بابت آپ نے ان کی شہادت کی طرف اشارہ فرمایا جو خدا کے ہاں مقدر تھی اور وہ وقت آیا کہ خود اسلام کے فرزندوں نے حضرت عثمان ؓجیسے جلیل القدر خلیفہ راشد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ آخر ان کو شہید کرکے دم لیا۔ 1390ھ کے حج کے موقع پر بقیع غرقد مدینہ میں جب حضرت عثمان کی قبر پر حاضر ہوا تو دیر تک ماضی کے تصورات میں کھویا ہوا آپ کی جلالت شان اور ملت کے بعض لوگوں کی غداری پر سوچتا رہا۔ اللہ پاک ان جملہ بزرگوں کو ہمارا سلام پہنچائے اور قیامت کے دن سب سے ملاقات نصیب کرے۔ آمین۔ مذکورہ اریس مدینہ کے ایک مشہور باغ کانام تھا۔ اس باغ کے کنویں میں آنحضرت ﷺکی انگوٹھی جو حضرت عثمان ؓ کی انگلی میں تھی۔ گرگئی تھی جو تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔ آج کل یہ کنواں مسجد قبا کے پاس کھنڈر کی شکل میں خشک موجود ہے۔ اسی جگہ یہ باغ واقع تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ashari (RA): I performed ablution in my house and then went out and said, "Today I shall stick to Allah's Apostle (ﷺ) and stay with him all this day of mine (in his service)." I went to the Mosque and asked about the Prophet (ﷺ) . They said, "He had gone in this direction." So I followed his way, asking about him till he entered a place called Bir Aris. I sat at its gate that was made of date-palm leaves till the Prophet (ﷺ) finished answering the call of nature and performed ablution. Then I went up to him to see him sitting at the well of Aris at the middle of its edge with his legs uncovered, hanging in the well. I greeted him and went back and sat at the gate. I said, "Today I will be the gatekeeper of the Prophet." Abu Bakr (RA) came and pushed the gate. I asked, "Who is it?" He said, "Abu Bakr." I told him to wait, went in and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Abu Bakr (RA) asks for permission to enter." He said, "Admit him and give him the glad tidings that he will be in Paradise." So I went out and said to Abu Bakr, "Come in, and Allah's Apostle (ﷺ) gives you the glad tidings that you will be in Paradise" Abu Bakr (RA) entered and sat on the right side of Allah's Apostle (ﷺ) on the built edge of the well and hung his legs n the well as the Prophet (ﷺ) did and uncovered his legs. I then returned and sat (at the gate). I had left my brother performing ablution and he intended to follow me. So I said (to myself). "If Allah wants good for so-and-so (i.e. my brother) He will bring him here." Suddenly somebody moved the door. I asked, "Who is it?" He said, "'Umar bin Al-Khattab (RA)." I asked him to wait, went to Allah's Apostle, greeted him and said, 'Umar bin Al-Khattab (RA) asks the permission to enter." He said, "Admit him, and give him the glad tidings that he will be in Paradise." I went to "Umar and said "Come in, and Allah's Apostle, gives you the glad tidings that you will be in Paradise." So he entered and sat beside Allah's Apostle (ﷺ) on the built edge of the well on the left side and hung his legs in the well. I returned and sat (at the gate) and said, (to myself), "If Allah wants good for so-and-so, He will bring him here." Somebody came and moved the door. I asked "Who is it?" He replied, "Uthman bin Affan." I asked him to wait and went to the Prophet (ﷺ) and informed him. He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise, I asked him to wait and went to the Prophet (ﷺ) and informed him. He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall him." So I went up to him and said to him, "Come in; Allah's Apostle (ﷺ) gives you the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall you. "Uthman then came in and found that the built edge of the well was occupied, so he sat opposite to the Prophet (ﷺ) on the other side. Said bin Al-Musaiyab said, "I interpret this (narration) in terms of their graves."