Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: What may be used to cover the private parts of the body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
369.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج میں قربانی کے دن منادی کرنے والوں کے ہمراہ روانہ کیا تاکہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ مشرکین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔
تشریح:
1۔ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرنے کی ممانعت ہی ستر پوشی کے وجوب کی دلیل ہے۔ عنوان کے ساتھ حدیث کے اسی جز کی مطابقت ہے۔ (عمدة القاري:291/3) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کرتی اور کہتی کہ مجھے کوئی طواف کے لیے اتنا کپڑا عاریتاً دے دے جس سے میں اپنی شرم گاہ ڈھانپ سکوں اور وہ شعر پڑھتی۔
آج جسم کا کچھ حصہ یا تمام جسم ننگا ہے اور جو حصہ عریاں ہے اسے کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں کرتی ہوں
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
367
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
369
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
369
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
369
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
)ما يستر من العورة) میں من بیانیہ ہے کہ جیسا کہ علامہ عینی اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے من بیانیہ میں مدخول کے تمام افراد پر حکم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے پوری عورۃ کا چھپانا ضروری ہے بعض حضرات کے نزدیک من (تَبعِيضِيَة)ہے اس میں مدخول کے بعض افراد پر حکم ہوتا ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ عورۃ لغوی طور پر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے حیا کی جائے ۔ اس میں عورۃ کے ان حصوں کا بیان ہے جن کا ستر واجب ہے مذکورہ باب میں من بیانیہ ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ جسم کے اس حصے کی تعیین کر دی جائے جس کا چھپانا ضروری ہے اسے عورۃ کہا جاتا ہے۔ اس کی تعیین و مصداق میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قابل ستر حصہ صرف (سَبِيلَين)یعنی قبل اور دبر ہیں جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد خارج صلاۃ کا مسئلہ بیان کرنا ہے کیونکہ نماز میں ستر کی وضاحت کر چکے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی حدیث میں احتباء کا ذکرہے جو خارج صلاۃ ہی ہو سکتا ہے داخل نماز میں احتباء کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔( فتح الباری:1/618۔)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج میں قربانی کے دن منادی کرنے والوں کے ہمراہ روانہ کیا تاکہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ مشرکین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرنے کی ممانعت ہی ستر پوشی کے وجوب کی دلیل ہے۔ عنوان کے ساتھ حدیث کے اسی جز کی مطابقت ہے۔ (عمدة القاري:291/3) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کرتی اور کہتی کہ مجھے کوئی طواف کے لیے اتنا کپڑا عاریتاً دے دے جس سے میں اپنی شرم گاہ ڈھانپ سکوں اور وہ شعر پڑھتی۔
آج جسم کا کچھ حصہ یا تمام جسم ننگا ہے اور جو حصہ عریاں ہے اسے کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں کرتی ہوں
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انھوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے حضرت ابوبکر ؓ نے یوم نحر ( ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تا کہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ سورہ براءت پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ امور کی ممانعت اس لیے کردی گئی کیونکہ بیت اللہ کی خدمت وحفاظت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت ﷺ نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی ؓ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کيے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام ﷺ کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ ﷺ نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت ﷺ نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی ؓ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم ﷺ مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی ؓ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی ؓ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضي اللہ تعالیٰ عنهم أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): On the Day of Nahr (10th of Dhul-Hijja, in the year prior to the last Hajj of the Prophet (ﷺ) when Abu Bakr (RA) was the leader of the pilgrims in that Hajj) Abu Bakr (RA) sent me along with other announcers to Mina to make a public announcement: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka’bah. Then Allah's Apostle (ﷺ) sent 'All to read out the Surat Bara'a (At-Tauba) to the people; so he made the announcement along with us on the day of Nahr in Mina: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka’bah."