باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) ؓ کے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of 'Uthman bin Affan رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
3695.
حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ باغ کے دروازے کی نگرانی کروں، چنانچہ ایک آدمی آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنادو۔‘‘ وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا تو اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دو اس مصیبت پر جو اسے پہنچے گی۔‘‘ وہ حضرت عثمان ؓ تھے۔ حماد نے کہا: ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابو عثمان کو ابوموسیٰ اشعری ؓ سے اس طرح بیان کرتے ہوئے سنا۔ عاصم نے اس میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ ایک جگہ تشریف فر ماتھے جہاں پانی تھا۔ جبکہ آپ نے دونوں گھٹنوں یا ایک گھٹنے سے کپڑا اٹھا رکھا تھا، جب حضرت عثمان ؓ اندر آئے تو آپ نے گھٹنوں پر کپڑا کر لیا۔
تشریح:
1۔مذکورہ حدیث متعدد مرتبہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔ اس میں حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک واضح فضیلت کا ذکر ہے کہ آپ جنتی ہیں لیکن آپ نے یہ بشارت دینے میں کچھ توقف فرمایا کہ میں پورے واقعے کی اطلاع کروں یا صرف دخول جنت کی بشارت سناؤں جب پورا واقعہ سنانے کی پختہ رائے ہوگئی تو دونوں معاملات کی خبر دی تاکہ آپ مصیبت پر صبر کریں۔2۔ اس حدیث کے آخر میں حضرت عاصم احول کے اضافے کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر اپنی ران ڈھانپ لی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ران ڈھانپنے کی وجہ بیان فرمائی : ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6209۔(2401)) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’عثمان بہت حیادار انسان ہیں اگر مجھے اس حالت میں پاتے تو اپنی حاجت پوری نہ کرپاتے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6220۔(2402)) حضرت عثمان ؓ کو حیا ہی مناسب تھی کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے داماد تھے اور داماد اپنے سسر سے حیا کیا کرتے ہیں اس کے علاوہ حیا داری آپ کی خاص صفت تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اشارہ فرمایاہے۔’’ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3556
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3695
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3695
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3695
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل اس متعلق روایت کو خود ہی متصل سند سے حدیث نمبر:2778۔کے تحت بیان کیا ہے کہ جب بلوائیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا تو آپ نے اوپر سے جھانک کریہ احادیث بیان کیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ جیش عسرہ سے مراد غزوہ تبوک کا لشکر ہے۔ آپ نے اس کی تیاری میں ڈھیروں خرچ کیا۔ احادیث میں ان کے بے شمار مناقب بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اتنا اعزاز ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں اس لیے آپ کو ذوالنوارین کہا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نمونے کے طور پر صرف پانچ احادیث ذکر کی ہیں۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ باغ کے دروازے کی نگرانی کروں، چنانچہ ایک آدمی آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنادو۔‘‘ وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا تو اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دو اس مصیبت پر جو اسے پہنچے گی۔‘‘ وہ حضرت عثمان ؓ تھے۔ حماد نے کہا: ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابو عثمان کو ابوموسیٰ اشعری ؓ سے اس طرح بیان کرتے ہوئے سنا۔ عاصم نے اس میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ ایک جگہ تشریف فر ماتھے جہاں پانی تھا۔ جبکہ آپ نے دونوں گھٹنوں یا ایک گھٹنے سے کپڑا اٹھا رکھا تھا، جب حضرت عثمان ؓ اندر آئے تو آپ نے گھٹنوں پر کپڑا کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔مذکورہ حدیث متعدد مرتبہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔ اس میں حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک واضح فضیلت کا ذکر ہے کہ آپ جنتی ہیں لیکن آپ نے یہ بشارت دینے میں کچھ توقف فرمایا کہ میں پورے واقعے کی اطلاع کروں یا صرف دخول جنت کی بشارت سناؤں جب پورا واقعہ سنانے کی پختہ رائے ہوگئی تو دونوں معاملات کی خبر دی تاکہ آپ مصیبت پر صبر کریں۔2۔ اس حدیث کے آخر میں حضرت عاصم احول کے اضافے کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر اپنی ران ڈھانپ لی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ران ڈھانپنے کی وجہ بیان فرمائی : ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6209۔(2401)) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’عثمان بہت حیادار انسان ہیں اگر مجھے اس حالت میں پاتے تو اپنی حاجت پوری نہ کرپاتے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6220۔(2402)) حضرت عثمان ؓ کو حیا ہی مناسب تھی کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے داماد تھے اور داماد اپنے سسر سے حیا کیا کرتے ہیں اس کے علاوہ حیا داری آپ کی خاص صفت تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اشارہ فرمایاہے۔’’ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "جس شخص نے بئررومہ کو کھودااس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمان ؓ نے اسے کھدوایا، نیز آپ نے فرمایا: "جس شخص نے جیش عسرہ کو سازوسامان مہیا کیا اس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمانؓ نے اس لشکر کو سامان مہیا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ایک باغ ( بئر اریس ) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتارہوں ۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو ، وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے ۔ پھر دوسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنادو ، وہ حضرت عمر ؓ تھے ۔ پھر تیسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ حضور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور ( دنیا میں ) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنادو ، وہ عثمان غنی ؓ تھے ۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا ، ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا ، انہوں نے ابوعثمان سے سنا اور وہ ابوموسیٰ سے اسی طرح بیان کرتے تھے ، لیکن عاصم نے اپنی اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس کے اندر پانی تھا اور آپ اپنے دونوں گھٹنے یا ایک گھٹنہ کھولے ہوئے تھے لیکن جب عثمان ؓ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے گھٹنے کو چھپالیا ۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت کو طبرانی نے نکالا ، لیکن حماد بن زید سے نہ کہ حماد بن سلمہ سے، البتہ حماد بن سلمہ نے صرف علی بن حکم سے روایت کی ہے، اس کو ابن ابی خیثمہ نے تاریخ میں نکالا ۔ آپ نے حضرت عثمان ؓ کی شرم وحیا کا خیال کرکے گھٹنا ڈھانک لیا تھا۔ اگر وہ ستر ہوتا تو حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے سامنے بھی کھلا نہ رکھتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) entered a garden and ordered me to guard its gate. A man came and asked permission to enter. The Prophet (ﷺ) said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." Behold! It was Abu Bakr. Another man came and asked the permission to enter. The Prophet (ﷺ) said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." Behold! It was 'Umar. Then another man came, asking the permission to enter. The Prophet (ﷺ) kept silent for a short while and then said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise with a calamity which will befall him." Behold! It was 'Uthman bin 'Affan. 'Asim, in another narration, said that the Prophet (ﷺ) was sitting in a place where there was water, and he was uncovering both his knees or his knee, and when 'Uthman entered, he covered them (or it).