باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) ؓ کے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of 'Uthman bin Affan رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
3696.
حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ حضرت مسوربن مخرمہ ؓ اور عبد الرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث نے ان سے کہا کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ سےان کے بھائی ولید کے متعلق گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ لوگ اس کے متعلق بہت چہ میگویاں کرتے ہیں، چنانچہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گیا۔ جب وہ نماز کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کی: مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جس میں آپ کے لیے خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: بھلے آدمی!میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس آکر ان لوگوں کے پاس آگیا۔ اتنے میں حضرت عثمان ؓ کا قاصد مجھے بلانے کے لیے آگیا۔ میں جب اس کے ہمراہ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھوں نے دریافت فرمایا: بتاؤ، تمھاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا، نیز آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا۔ آپ نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو ملاحظہ کیا۔ بات یہ ہے کہ لوگ ولید کے متعلق بہت باتیں کر رہے ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: کیاتونے رسول اللہ ﷺ کو پایا ہے؟میں نے کہا: نہیں، لیکن آپ ﷺ کی احادیث مجھے پہنچی ہیں جیسا کہ کنواری لڑکی تک کو اس کے پردے کے باوجود پہنچ چکی ہیں۔ اس پر حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں ہی تھا۔ میں اس حق پر ایمان لایا جسے دے کر آپ کو بھیجا گیا تھا اور میں نے دو ہجرتیں کی ہیں جیسا کہ تونے ذکر کیا ہے۔ بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور آپ کی صحبت میں رہا، اللہ کی قسم!میں نے کبھی آپ کی نا فرمانی نہیں کی اور نہ کبھی آپ سے خیانت ہی کا ارتکاب کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے ساتھ بھی میرا یہی رویہ تھا۔ پھر مجھے ان کا جانشین بنا دیا گیا۔ تو کیامجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انھیں حاصل تھے؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرورحاصل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ان باتوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے جو وقتاًفوقتاً تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں؟باقی جو تم نے ولید کے متعلق شکایت کی ہے ان شاء اللہ ہم اس کی سزاجو واجب ہے ضروردیں گے۔ اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور انھیں فرمایا کہ وہ ولید کو کوڑے ماریں، چنانچہ انھوں نے ولید کو اسی(80)کوڑے بطور حد لگائے۔
تشریح:
1۔ ولید بن عقبہ حضرت عثمان ؓ کے مادری بھائی تھے۔ وہ حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ ان کے متعلق شراب نوشی کی شکایات تھیں۔ حضرت عبید اللہ بن عدی ؓ نے بھی حضرت عثمان سے ولید کے شراب پینے کے متعلق کہا تھا۔حضرت عددى ؓ آپ کے بھانجے تھے۔حضرت مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود نے اس لیے ان کا (انتخاب کیا تھا کہ وہ اپنے ماموں سے ولید کے متعلق بات کریں لیکن حضرت عثمان ؓ نے أعوذ باللہ پڑھ کر ان کی بات کو اس وقت نہ سنا کہ نماز میں اس کے متعلق برے خیالات نہ آئیں اس لیے آپ نے نماز کے بعد ان سے بات کرنا پسند فرمایا: پھر حضرت عثمان ؓ بڑے صاحب مروت اور حیا دار قسم کے انسان تھے انھیں یہ بات بار خاطر تھی کہ میں اسے ان باتوں کا ایسا جواب دوں جو انھیں برا لگے اور ان پر گراں گزرے اس لیے اللہ کی پناہ مانگی ۔ 2۔ اس حدیث میں بیان کردہ مباحث اپنے اپنے مقام پر بیان ہوں گے البتہ اس میں حضرت عثمان ؓ کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے کہ آپ سابقین میں سے ہیں آپ نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی رفاقت کا پورا پورا حق ادا کیا ان سے کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ کی راہ میں ہجرتیں (ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ طیبہ) کیں۔۔۔رضي اللہ تعالیٰ عنه۔۔۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3557
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3696
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3696
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3696
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل اس متعلق روایت کو خود ہی متصل سند سے حدیث نمبر:2778۔کے تحت بیان کیا ہے کہ جب بلوائیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا تو آپ نے اوپر سے جھانک کریہ احادیث بیان کیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ جیش عسرہ سے مراد غزوہ تبوک کا لشکر ہے۔ آپ نے اس کی تیاری میں ڈھیروں خرچ کیا۔ احادیث میں ان کے بے شمار مناقب بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اتنا اعزاز ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں اس لیے آپ کو ذوالنوارین کہا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نمونے کے طور پر صرف پانچ احادیث ذکر کی ہیں۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
حدیث ترجمہ:
حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ حضرت مسوربن مخرمہ ؓ اور عبد الرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث نے ان سے کہا کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ سےان کے بھائی ولید کے متعلق گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ لوگ اس کے متعلق بہت چہ میگویاں کرتے ہیں، چنانچہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گیا۔ جب وہ نماز کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کی: مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جس میں آپ کے لیے خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: بھلے آدمی!میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس آکر ان لوگوں کے پاس آگیا۔ اتنے میں حضرت عثمان ؓ کا قاصد مجھے بلانے کے لیے آگیا۔ میں جب اس کے ہمراہ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھوں نے دریافت فرمایا: بتاؤ، تمھاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا، نیز آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا۔ آپ نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو ملاحظہ کیا۔ بات یہ ہے کہ لوگ ولید کے متعلق بہت باتیں کر رہے ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: کیاتونے رسول اللہ ﷺ کو پایا ہے؟میں نے کہا: نہیں، لیکن آپ ﷺ کی احادیث مجھے پہنچی ہیں جیسا کہ کنواری لڑکی تک کو اس کے پردے کے باوجود پہنچ چکی ہیں۔ اس پر حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں ہی تھا۔ میں اس حق پر ایمان لایا جسے دے کر آپ کو بھیجا گیا تھا اور میں نے دو ہجرتیں کی ہیں جیسا کہ تونے ذکر کیا ہے۔ بلا شبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور آپ کی صحبت میں رہا، اللہ کی قسم!میں نے کبھی آپ کی نا فرمانی نہیں کی اور نہ کبھی آپ سے خیانت ہی کا ارتکاب کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے ساتھ بھی میرا یہی رویہ تھا۔ پھر مجھے ان کا جانشین بنا دیا گیا۔ تو کیامجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انھیں حاصل تھے؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرورحاصل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ان باتوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے جو وقتاًفوقتاً تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں؟باقی جو تم نے ولید کے متعلق شکایت کی ہے ان شاء اللہ ہم اس کی سزاجو واجب ہے ضروردیں گے۔ اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور انھیں فرمایا کہ وہ ولید کو کوڑے ماریں، چنانچہ انھوں نے ولید کو اسی(80)کوڑے بطور حد لگائے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ولید بن عقبہ حضرت عثمان ؓ کے مادری بھائی تھے۔ وہ حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ ان کے متعلق شراب نوشی کی شکایات تھیں۔ حضرت عبید اللہ بن عدی ؓ نے بھی حضرت عثمان سے ولید کے شراب پینے کے متعلق کہا تھا۔حضرت عددى ؓ آپ کے بھانجے تھے۔حضرت مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود نے اس لیے ان کا (انتخاب کیا تھا کہ وہ اپنے ماموں سے ولید کے متعلق بات کریں لیکن حضرت عثمان ؓ نے أعوذ باللہ پڑھ کر ان کی بات کو اس وقت نہ سنا کہ نماز میں اس کے متعلق برے خیالات نہ آئیں اس لیے آپ نے نماز کے بعد ان سے بات کرنا پسند فرمایا: پھر حضرت عثمان ؓ بڑے صاحب مروت اور حیا دار قسم کے انسان تھے انھیں یہ بات بار خاطر تھی کہ میں اسے ان باتوں کا ایسا جواب دوں جو انھیں برا لگے اور ان پر گراں گزرے اس لیے اللہ کی پناہ مانگی ۔ 2۔ اس حدیث میں بیان کردہ مباحث اپنے اپنے مقام پر بیان ہوں گے البتہ اس میں حضرت عثمان ؓ کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے کہ آپ سابقین میں سے ہیں آپ نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی رفاقت کا پورا پورا حق ادا کیا ان سے کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ کی راہ میں ہجرتیں (ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ طیبہ) کیں۔۔۔رضي اللہ تعالیٰ عنه۔۔۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "جس شخص نے بئررومہ کو کھودااس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمان ؓ نے اسے کھدوایا، نیز آپ نے فرمایا: "جس شخص نے جیش عسرہ کو سازوسامان مہیا کیا اس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمانؓ نے اس لشکر کو سامان مہیا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عروہ نے خبردی ، انہیں عبید اللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث ؓ نے ان سے کہا کہ تم حضرت عثمان ؓ سے ان کے بھائی ولید کے مقدمہ میں ( جسے حضرت عثمان ؓ نے کوفہ کا گورنر بنایا تھا ) کیوں گفتگو نہیں کرتے ، لوگ اس سے بہت ناراض ہیں ۔ چنانچہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گیا ، اور جب وہ نماز کے لیے باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے اور وہ ہے آپ کے ساتھ ایک خیرخواہی ! اس پر عثمان ؓ نے فرمایا : بھلے آدمی تم سے ( میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں ) امام بخاری ؒ نے کہا : میں سمجھتاہوں کہ معمر نے یوں روایت کیا ، میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں ۔ میں واپس ان دونوں کے پاس گیا ، اتنے میں حضرت عثمان ؓ کا قاصد مجھ کو بلانے کے لیے آیا میں جب اس کے ساتھ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تمہاری خیر خواہی کیا تھی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل کی آپ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کیا تھا ۔ آپ نے دودہجرتیں کیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو دیکھا ، لیکن بات یہ ہے کہ لوگ ولید کی بہت شکایتیں کررہے ہیں ۔ حضرت عثمان ؓ نے اس پر پوچھا : تم نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی احادیث ایک کنواری لڑکی تک کو اس کے تمام پردوں کے باوجود جب پہنچ چکی ہیں تو مجھے کیوں نہ معلوم ہوتیں ۔ اس پر حضرت عثمان نے فرمایا : أمابعد : بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں بھی تھا ۔ حضور اکرم ﷺ جس دعوت کو لے کر بھیجے گئے تھے میں اس پر پورے طور سے ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا دوہجرتیں بھی کیں ۔ میں حضور اکرم ﷺ کی صحبت میں بھی رہا ہوں اور آپ سے بیعت بھی کی ہے ۔ پس خدا کی قسم میں نے کبھی آپ کے حکم سے سرتابی نہیں کی ۔ اور نہ آپ کے ساتھ کبھی کوئی دھوکا کیا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی ۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ کے ساتھ بھی میرایہی معاملہ رہا ۔ اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا تو کیا جب کہ مجھے ان کا جانشیں بنادیاگیا ہے تو مجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انہیں تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا کہ پھر ان باتوں کے لیے کیا جواز رہ جاتا ہے جو تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں لیکن تم نے جو ولید کے حالات کا ذکر کیا ہے ، إن شاءاللہ ہم اس کی سزا جو واجبی ہے اس کو دیں گے ۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ولید کو حد لگائیں ۔ چنانچہ انہوں نے ولید کو اسی کوڑے حد کے لگائے ۔
حدیث حاشیہ:
ولید حضرت عثمان ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔ ، ہوایہ تھا کہ سعد بن ابی وقاص کو جو عشرہ مبشرہ میں تھے حضرت عثمان نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تھا، ان میں اور عبداللہ بن مسعود ؓ میں کچھ تکرار ہوئی تو حضرت عثمان ؓ نے ولید کو وہاں کا حاکم مقرر کردیا اور سعد کو معزول کردیا۔ ولید نے بڑی بے اعتدالیاں شروع کیں، شراب خوری، ظلم وزیادتی کی، لوگ حضرت عثمان ؓ سے ناراض ہوئے کہ سعد ایسے جلیل القدر صحابی کو معزول کرکے حاکم کس کو کیا ولید کو جس کی کوئی فضیلت نہ تھی اور اس کا باپ عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا جس نے آنحضرت ﷺ کا گلا گھونٹاتھا۔ آپ پر نماز میں اوجھڑی ڈالی تھی۔ خیر اگر ولید کوئی برا کام نہ کرتا تو باپ کے اعمال سے بیٹے کو غرض نہ تھی مگر بموجب ”الولد سر لأبیه“ ولید نے بھی ہاتھ پاؤں پیٹ سے نکالے ۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaid-ullah bin 'Adi bin Al-Khiyar (RA): Al-Miswar bin Makhrama and 'Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth said (to me), "What forbids you to talk to 'Uthman about his brother Al-Walid because people have talked much about him?" So I went to 'Uthman and when he went out for prayer I said (to him), "I have something to say to you and it is a piece of advice for you " 'Uthman said, "O man, from you." (Umar said: I see that he said, "I seek Refuge with Allah from you.") So I left him and went to them. Then the messenger of Uthman came and I went to him (i.e. 'Uthman), 'Uthman asked, "What is your advice?" I replied, "Allah sent Muhammad with the Truth, and revealed the Divine Book (i.e. Qur'an) to him; and you were amongst those who followed Allah and His Apostle, and you participated in the two migrations (to Ethiopia and to Medina) and enjoyed the company of Allah's Apostle (ﷺ) and saw his way. No doubt, the people are talking much about Al-Walid." 'Uthman said, "Did you receive your knowledge directly from Allah's Apostle (ﷺ) ?" I said, "No, but his knowledge did reach me and it reached (even) to a virgin in her seclusion." 'Uthman said, "And then Allah sent Muhammad with the Truth and I was amongst those who followed Allah and His Apostle (ﷺ) and I believed in what ever he (i.e. the Prophet) was sent with, and participated in two migrations, as you have said, and I enjoyed the company of Allah's Apostle (ﷺ) and gave the pledge of allegiance him. By Allah! I never disobeyed him, nor did I cheat him till Allah took him unto Him. Then I treated Abu Bakr (RA) and then 'Umar similarly and then I was made Caliph. So, don't I have rights similar to theirs?" I said, "Yes." He said, "Then what are these talks reaching me from you people? Now, concerning what you mentioned about the question of Al-Walid, Allah willing, I shall deal with him according to what is right." Then he called 'Ali and ordered him to flog him, and 'Ali flogged him (i.e. Al-Walid) eighty lashes.