باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) ؓ کے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of 'Uthman bin Affan رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
3698.
حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر !میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان ؓ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔ )پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں(جانتا ہوں۔ ) تب اس شخص نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ادھر آمیں تجھے ان کی وضاحت کرتا ہوں۔ اُحد سے بھاگ جانے کی بابت تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا اور انھیں بخش دیا۔ رہا بدر کی لرائی میں شریک نہ ہونا!تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر تھیں، وہ ان دنوں بیمار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’(تم اس کی تیمارداری کرو)تمھیں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر حصہ اور ثواب ملے گا۔‘‘ باقی رہا ان کا بیعت رضوان سے غائب رہنا!تو اگر کوئی شخص مکہ میں حضرت عثمان سے زیادہ با عزت ہو تا تو آپ اسے روانہ کر دیتے، لہٰذا انھیں رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا تو آپ چلے گئے اور جب بیعت رضوان ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قراردےکر اسے اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا اور فرمایا: ’’یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہے۔‘‘ پھر حضرت ابن عمر ؓنے اس شخص سے فرمایا: اب ان باتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جا۔
تشریح:
1۔سائل اہل مصر سے تھا اس کا مقصد حضرت عثمان ؓ پر اعتراضات کرنا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کے کافی شافی جوابات دیے۔ اس سے حضرت عثمان کی فضیلت واضح ہوتی ہے کہ غزوہ احد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ انھیں معاف کردیا اور بخش دیا۔ جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجود بھی انھیں حاضر ہونے والوں کا سا حصہ دیا اور ان جیسا ثواب حاصل ہوا جو کسی اور غائب ہونے والے کو نصیب نہ ہوا۔ بیعت رضوان میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ ہے‘‘ یہ وہ سعادت ہے جو اور کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ 2۔مصر سے آنے والا شخص حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا اوقر تعجب کے باعث اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے تین سوالات کیے تھے ۔ جب انھوں نے ان سوالات کی تصدیق کی تو خوشی سے اس نے اللہ أکبرکانعرہ بلند کیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے تینوں سوالوں کا تفصیل سے جواب دے کر اسے کہا:اب جاؤ اپنا عقیدہ صحیح کرو اور غلط پروپیگنڈا بند کردو۔3۔حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حولاے سے لکھا ہے ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے تو حضرت عثمان ؓ نے خود ان کو وہی جوابات دیے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اعتراض کرنے والے کو دیے۔ (فتح الباري:75/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3559
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3698
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3698
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3699
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل اس متعلق روایت کو خود ہی متصل سند سے حدیث نمبر:2778۔کے تحت بیان کیا ہے کہ جب بلوائیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا تو آپ نے اوپر سے جھانک کریہ احادیث بیان کیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ جیش عسرہ سے مراد غزوہ تبوک کا لشکر ہے۔ آپ نے اس کی تیاری میں ڈھیروں خرچ کیا۔ احادیث میں ان کے بے شمار مناقب بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اتنا اعزاز ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں اس لیے آپ کو ذوالنوارین کہا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نمونے کے طور پر صرف پانچ احادیث ذکر کی ہیں۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
حدیث ترجمہ:
حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر !میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان ؓ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔ )پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں(جانتا ہوں۔ ) تب اس شخص نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ادھر آمیں تجھے ان کی وضاحت کرتا ہوں۔ اُحد سے بھاگ جانے کی بابت تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا اور انھیں بخش دیا۔ رہا بدر کی لرائی میں شریک نہ ہونا!تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر تھیں، وہ ان دنوں بیمار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’(تم اس کی تیمارداری کرو)تمھیں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر حصہ اور ثواب ملے گا۔‘‘ باقی رہا ان کا بیعت رضوان سے غائب رہنا!تو اگر کوئی شخص مکہ میں حضرت عثمان سے زیادہ با عزت ہو تا تو آپ اسے روانہ کر دیتے، لہٰذا انھیں رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا تو آپ چلے گئے اور جب بیعت رضوان ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قراردےکر اسے اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا اور فرمایا: ’’یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت ہے۔‘‘ پھر حضرت ابن عمر ؓنے اس شخص سے فرمایا: اب ان باتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جا۔
حدیث حاشیہ:
1۔سائل اہل مصر سے تھا اس کا مقصد حضرت عثمان ؓ پر اعتراضات کرنا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کے کافی شافی جوابات دیے۔ اس سے حضرت عثمان کی فضیلت واضح ہوتی ہے کہ غزوہ احد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ انھیں معاف کردیا اور بخش دیا۔ جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجود بھی انھیں حاضر ہونے والوں کا سا حصہ دیا اور ان جیسا ثواب حاصل ہوا جو کسی اور غائب ہونے والے کو نصیب نہ ہوا۔ بیعت رضوان میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ ہے‘‘ یہ وہ سعادت ہے جو اور کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ 2۔مصر سے آنے والا شخص حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا اوقر تعجب کے باعث اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے تین سوالات کیے تھے ۔ جب انھوں نے ان سوالات کی تصدیق کی تو خوشی سے اس نے اللہ أکبرکانعرہ بلند کیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے تینوں سوالوں کا تفصیل سے جواب دے کر اسے کہا:اب جاؤ اپنا عقیدہ صحیح کرو اور غلط پروپیگنڈا بند کردو۔3۔حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حولاے سے لکھا ہے ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے تو حضرت عثمان ؓ نے خود ان کو وہی جوابات دیے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اعتراض کرنے والے کو دیے۔ (فتح الباري:75/7)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "جس شخص نے بئررومہ کو کھودااس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمان ؓ نے اسے کھدوایا، نیز آپ نے فرمایا: "جس شخص نے جیش عسرہ کو سازوسامان مہیا کیا اس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمانؓ نے اس لشکر کو سامان مہیا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، کہا ہم سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ مصروالوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا ، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمرہیں ۔ اس نے پوچھا ۔ اے ابن عمر ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتاہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان ؓ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی ؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدرکی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہواتھا ۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے ۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ أکبر تو ابن عمر ؓ نے کہا کہ قریب آجاؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا ۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے ۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں ( مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا ) اتناہی اجر وثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص ( مسلمانوں میں سے ) عثمان ؓ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو حضور اکرم ﷺ اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے ، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے انہیں ( قریش سے باتیں کرنے کے لیے ) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہورہی تھی تو عثمان ؓ مکہ جاچکے تھے ، اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایاتھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے ۔ اس کے بعد ابن عمر ؓ نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uthman (RA): (the son of Muhib) An Egyptian who came and performed the Hajj to the Kaba saw some people sitting. He enquire, "Who are these people?" Somebody said, "They are the tribe of Quraish." He said, "Who is the old man sitting amongst them?" The people replied, "He is 'Abdullah bin 'Umar." He said, "O Ibn Umar (RA) ! I want to ask you about something; please tell me about it. Do you know that 'Uthman fled away on the day (of the battle) of Uhud?" Ibn 'Umar said, "Yes." The (Egyptian) man said, "Do you know that 'Uthman was absent on the day (of the battle) of Badr and did not join it?" Ibn 'Umar (RA) said, "Yes." The man said, "Do you know that he failed to attend the Ar Ridwan pledge and did not witness it (i.e. Hudaibiya pledge of allegiance)?" Ibn 'Umar (RA) said, "Yes." The man said, "Allahu Akbar!" Ibn 'Umar (RA) said, "Let me explain to you (all these three things). As for his flight on the day of Uhud, I testify that Allah has excused him and forgiven him; and as for his absence from the battle of Badr, it was due to the fact that the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) was his wife and she was sick then. Allah's Apostle (ﷺ) said to him, "You will receive the same reward and share (of the booty) as anyone of those who participated in the battle of Badr (if you stay with her).' As for his absence from the Ar-Ridwan pledge of allegiance, had there been any person in Makkah more respectable than 'Uthman (to be sent as a representative). Allah's Apostle (ﷺ) would have sent him instead of him. No doubt, Allah's Apostle (ﷺ) had sent him, and the incident of the Ar-Ridwan pledge of Allegiance happened after 'Uthman had gone to Makkah. Allah's Apostle (ﷺ) held out his right hand saying, 'This is 'Uthman's hand.' He stroke his (other) hand with it saying, 'This (pledge of allegiance) is on the behalf of 'Uthman.' Then Ibn 'Umar (RA) said to the man, 'Bear (these) excuses in mind with you.'