باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) ؓ کے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of 'Uthman bin Affan رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
3699.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو خیال نہیں کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو۔ پھر ہم نبی ﷺ کے اصحاب کو چھوڑدیتے تھے، ایک دوسرے سے کسی کو افضل نہیں جانتے تھے۔ عبدالعزیز سے روایت کرنے میں عبد اللہ نے شاذان کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
بعض روایات میں حراء پہاڑی پر چڑھنے کا ذکر ہے ممکن ہے کہ واقعات متعدد ہوں کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جنبل حراءپر تھے تو وہ حرکت میں آگیا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھہرجا !تیرے اوپر نبی ،صدیق اور شہید ہیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6247۔6248) اس کی تائید ایک اورروایت سے بھی ہوتی ہے جو جامع ترمذی میں سعید بن زید سے مروی ہے۔ (فتح الباري:74/7)اور سنن دار قطنی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی گئی ہے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3696)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3560
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3699
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3699
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3697
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل اس متعلق روایت کو خود ہی متصل سند سے حدیث نمبر:2778۔کے تحت بیان کیا ہے کہ جب بلوائیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا تو آپ نے اوپر سے جھانک کریہ احادیث بیان کیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ جیش عسرہ سے مراد غزوہ تبوک کا لشکر ہے۔ آپ نے اس کی تیاری میں ڈھیروں خرچ کیا۔ احادیث میں ان کے بے شمار مناقب بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اتنا اعزاز ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں اس لیے آپ کو ذوالنوارین کہا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نمونے کے طور پر صرف پانچ احادیث ذکر کی ہیں۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص بئر رومہ ( ایک کنواں ) کو خرید کر سب کے لیے عام کردے ۔ اس کے لیے جنت ہے ۔ تو حضرت عثمان ؓ نے اسے خرید کر عام کردیا تھا اور آنحضرتﷺنے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ ( غزوہ تبوک کے لشکر ) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف، عبدمناف میں وہ آنحضرت ﷺکے نسب سے مل جاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عبداللہ ان کے صاحبزادے حضرت رقیہ سے تھے جو چھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان کو آسمان والے ذوالنورین کہتے ہیں، سوا ان کے کسی کے پاس پیغمبر کی دوبیٹیاں جمع نہیں ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ ان کو بہت چاہتے تھے، فرمایا اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔ ؓ وارضاہ۔جیش عسرہ والی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جنگ تبوک کے لیے ایک ہزار اشرفیاں لاکر آنحضرت ﷺ کی گود میں ڈال دی تھیں۔ آپ ان کو گنتے جاتے اور فرماتے جاتے اب عثمان ؓ کو کچھ نقصان ہونے والا نہیں وہ کیسے ہی عمل کرے ۔ اس جنگ میں انہوں نے 950 اونٹ اور پچاس گھوڑے بھی دیئے تھے۔ صدافسوس کہ ایسے بزرگ ترین صحابی کی شان میں آج کچھ لوگ تنقیص کی مہم چلارہے ہیں جو خود ان کی اپنی تنقیص ہےگرنہ بیند بروز شپرہ چشمچشمہ آفتاب راچہ گناہ
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر کسی کو خیال نہیں کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو۔ پھر ہم نبی ﷺ کے اصحاب کو چھوڑدیتے تھے، ایک دوسرے سے کسی کو افضل نہیں جانتے تھے۔ عبدالعزیز سے روایت کرنے میں عبد اللہ نے شاذان کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
بعض روایات میں حراء پہاڑی پر چڑھنے کا ذکر ہے ممکن ہے کہ واقعات متعدد ہوں کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جنبل حراءپر تھے تو وہ حرکت میں آگیا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھہرجا !تیرے اوپر نبی ،صدیق اور شہید ہیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6247۔6248) اس کی تائید ایک اورروایت سے بھی ہوتی ہے جو جامع ترمذی میں سعید بن زید سے مروی ہے۔ (فتح الباري:74/7)اور سنن دار قطنی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی گئی ہے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3696)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "جس شخص نے بئررومہ کو کھودااس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمان ؓ نے اسے کھدوایا، نیز آپ نے فرمایا: "جس شخص نے جیش عسرہ کو سازوسامان مہیا کیا اس کے لیے جنت ہے۔ "تو حضرت عثمانؓ نے اس لشکر کو سامان مہیا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے سعید نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر ، عمر اور عثمان ؓم بھی تھے تو پہاڑ کا نپنے لگا ۔ آپ نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا۔ میرا خیال ہے کہ حضور نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دوشہید ہی تو ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) ascended the mountain of Uhud and Abu Bakr, 'Umar and 'Uthman were accompanying him. The mountain gave a shake (i.e. trembled underneath them) . The Prophet (ﷺ) said, "O Uhud ! Be calm." I think that the Prophet (ﷺ) hit it with his foot, adding, "For upon you there are none but a Prophet, a Siddiq and two martyrs."