باب: نبی ﷺ کے رشتہ داروں کے فضائل اور حضرت فاطمہ بنت النبی ﷺکے فضائل کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of the relatives of Allah’s Messenger (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ فاطمہ ؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں، رمضان 2 ہجری میں ان کا نکاح حضرت علی ؓسے ہوا، ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی، حضرت حسن وحسین ؓآپ ہی کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ 28سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد آپ نے انتقال فرمایا،ؓ و ارضاہا۔حافظ رحمہ اللہ نے کہا کہ باب کا مطلب اسی فقرہ ( قرابت ) سے نکلتا ہے، اور یہاں قرابت والوں سے عبدالمطلب کی اولاد مراد ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کودیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسین ؓ، حضرت محسن ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ، ان کی صاحبزادی ام کلثومؓ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ حضرت جعفر اور ان کی اولاد ، حمزہ بن عبدالمطلب ان کی اولاد یعلیٰ ، عمدہ، امامہ، عباس بن عبدالمطلب ، ان کے بیٹے فضل، عبداللہ ، قثثعم، عبید اللہ، حارث ، سعید، عبدالرحمن، کثیر، عون ، تمام ان کی بیٹیاں ام احبیبہ، آمنہ، صفیہ، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ، ان کی اولاد جعفر، نوفل، ان کے بیٹے مغیرہ ، حارث ، عبدالمطلب کی بیٹیاں ثقیلہ، امیمہ، ارویٰ، صفیہ، یہ سب لوگ اور ان کی اولاد قیامت تک آنحضرت ﷺکی قرابت والوں میں داخل ہیں۔ ( وحیدی
3712.
حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہمارے(ترکہ میں) وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد کے اخراجات اسی مال سے پورے کیے جائیں۔ خوردنوش سے زیادہ ان کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صدقات، جو نبی کریم ﷺ کے زمانے مبارک میں ہوا کرتے تھے، میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا بلکہ ان میں وہ نظام جاری رکھوں گا جو رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ آپ کے ہاں آئے اور کہنے لگے: ابوبکر !ہم آپ کے مقام اور مرتبے کا اعتراف کرتے ہیں، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سےاپنی قرابت اور حق کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ بہتر سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔
تشریح:
1۔حضرت فاطمہ ؓ کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام صدقات آپ کی ملکیت تھے،اس لیے اس ترکے سے ہمیں حصہ ملنا چاہیے لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ محبوب ہے۔لیکن رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور معمولات کے پیش نظر آپ کے صدقات وترکات کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تمام آپ کی آل واولاد،ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور دیگر عام مصالح کے لیے وقف ہیں۔یہ ایسے صدقات ہیں جن پر آپ کی وفات کے بعد ملکیت کا دعویٰ نہیں کیاجاسکتا،بلکہ مذکورہ حضرات قیاس قیامت تک ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہیں گے۔لیکن اسے اپنی ملکیت تصور نہیں کریں گے۔2۔بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے کا بیان ہے ،اس لیے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3572.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3712
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3712
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3712
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
اس مقام پر قرابت سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔مرد ہوں یا عورتیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد،حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کی اولاد،حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد ،حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد ،ابوسفیان بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کی اولاد اور نوفل بن حارث اور آپ کی اولاد وغیرہ ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مناقب کا بیان بطور قرابت کے ہے۔ویسے ان کے متعلق ایک مستقل عنوان بھی ہے جو آئندہ ذکر ہوگا۔ان کے متعلق معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی حدیث نمبر۔3624۔کے تحت متصل سند سے بیان کیاہے۔
اور آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ فاطمہ ؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں، رمضان 2 ہجری میں ان کا نکاح حضرت علی ؓسے ہوا، ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی، حضرت حسن وحسین ؓآپ ہی کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ 28سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد آپ نے انتقال فرمایا،ؓ و ارضاہا۔حافظ رحمہ اللہ نے کہا کہ باب کا مطلب اسی فقرہ ( قرابت ) سے نکلتا ہے، اور یہاں قرابت والوں سے عبدالمطلب کی اولاد مراد ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کودیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسین ؓ، حضرت محسن ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ، ان کی صاحبزادی ام کلثومؓ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ حضرت جعفر اور ان کی اولاد ، حمزہ بن عبدالمطلب ان کی اولاد یعلیٰ ، عمدہ، امامہ، عباس بن عبدالمطلب ، ان کے بیٹے فضل، عبداللہ ، قثثعم، عبید اللہ، حارث ، سعید، عبدالرحمن، کثیر، عون ، تمام ان کی بیٹیاں ام احبیبہ، آمنہ، صفیہ، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ، ان کی اولاد جعفر، نوفل، ان کے بیٹے مغیرہ ، حارث ، عبدالمطلب کی بیٹیاں ثقیلہ، امیمہ، ارویٰ، صفیہ، یہ سب لوگ اور ان کی اولاد قیامت تک آنحضرت ﷺکی قرابت والوں میں داخل ہیں۔ ( وحیدی
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہمارے(ترکہ میں) وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد کے اخراجات اسی مال سے پورے کیے جائیں۔ خوردنوش سے زیادہ ان کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صدقات، جو نبی کریم ﷺ کے زمانے مبارک میں ہوا کرتے تھے، میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا بلکہ ان میں وہ نظام جاری رکھوں گا جو رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ آپ کے ہاں آئے اور کہنے لگے: ابوبکر !ہم آپ کے مقام اور مرتبے کا اعتراف کرتے ہیں، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سےاپنی قرابت اور حق کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ بہتر سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت فاطمہ ؓ کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام صدقات آپ کی ملکیت تھے،اس لیے اس ترکے سے ہمیں حصہ ملنا چاہیے لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ محبوب ہے۔لیکن رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور معمولات کے پیش نظر آپ کے صدقات وترکات کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تمام آپ کی آل واولاد،ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور دیگر عام مصالح کے لیے وقف ہیں۔یہ ایسے صدقات ہیں جن پر آپ کی وفات کے بعد ملکیت کا دعویٰ نہیں کیاجاسکتا،بلکہ مذکورہ حضرات قیاس قیامت تک ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہیں گے۔لیکن اسے اپنی ملکیت تصور نہیں کریں گے۔2۔بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے کا بیان ہے ،اس لیے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ان کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا: "فاطمہ ؓ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ حضور ﷺ خود فرماگئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی ۔ ہم ( انبیاء) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور یہ کہ آل محمد کے اخراجات اسی مال میں سے پورے کئے جائیں مگر انہیں یہ حق نہیں ہوگا کہ کھانے کے علاوہ اور کچھ تصرف کریں اور میں ، خدا کی قسم حضور کے صدقے جو آپ کے زمانے میں ہواکرتے تھے ان میں کوئی رد وبدل نہیں کروں گا بلکہ وہی نظام جاری رکھوں گا جیسے حضور ﷺ نے قائم فرمایا تھا ، پھر حضرت علی ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے ابوبکر ؓ ہم آپ کی فضیلت و مرتبہ کا اقرار کرتے ہیں ، اس کے بعد انہوں نے حضور ﷺ سے اپنی قرابت کا اور اپنے حق کا ذکر کیا ، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آنحضرت ﷺ کی قرابت والوں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی قرابت والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakr (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'We (Prophets), our property is not inherited, and whatever we leave is Sadaqa, but Muhammad's Family can eat from this property, i.e. Allah's property, but they have no right to take more than the food they need.' By Allah! I will not bring any change in dealing with the Sadaqa of the Prophet (ﷺ) (and will keep them) as they used to be observed in his (i.e. the Prophet's) life-time, and I will dispose with it as Allah's Apostle (ﷺ) used to do," Then 'Ali said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and that Muhammad is His Apostle," and added, "O Abu Bakr! We acknowledge your superiority." Then he (i.e. 'Ali) mentioned their own relationship to Allah's Apostle (ﷺ) and their right. Abu Bakr (RA) then spoke saying, "By Allah in Whose Hands my life is.