باب: نبی ﷺ کے رشتہ داروں کے فضائل اور حضرت فاطمہ بنت النبی ﷺکے فضائل کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of the relatives of Allah’s Messenger (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ فاطمہ ؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں، رمضان 2 ہجری میں ان کا نکاح حضرت علی ؓسے ہوا، ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی، حضرت حسن وحسین ؓآپ ہی کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ 28سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد آپ نے انتقال فرمایا،ؓ و ارضاہا۔حافظ رحمہ اللہ نے کہا کہ باب کا مطلب اسی فقرہ ( قرابت ) سے نکلتا ہے، اور یہاں قرابت والوں سے عبدالمطلب کی اولاد مراد ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کودیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسین ؓ، حضرت محسن ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ، ان کی صاحبزادی ام کلثومؓ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ حضرت جعفر اور ان کی اولاد ، حمزہ بن عبدالمطلب ان کی اولاد یعلیٰ ، عمدہ، امامہ، عباس بن عبدالمطلب ، ان کے بیٹے فضل، عبداللہ ، قثثعم، عبید اللہ، حارث ، سعید، عبدالرحمن، کثیر، عون ، تمام ان کی بیٹیاں ام احبیبہ، آمنہ، صفیہ، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ، ان کی اولاد جعفر، نوفل، ان کے بیٹے مغیرہ ، حارث ، عبدالمطلب کی بیٹیاں ثقیلہ، امیمہ، ارویٰ، صفیہ، یہ سب لوگ اور ان کی اولاد قیامت تک آنحضرت ﷺکی قرابت والوں میں داخل ہیں۔ ( وحیدی
3716.
انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے ) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔
تشریح:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو ثابت کیا ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے محبت کرناایمان کا تقاضا ہے۔ان قرابت داروں میں سرفہرست حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہیں۔انھیں بلاوجہ ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرناہے،اس لیے انھیں خوش رکھنے کے لیے انتہائی کوشش کی جائے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا:میرے اہل بیت میں سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ مجھ سے ملاقات کریں گی،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ ؓوفات پاگئیں۔اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3575.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3716
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3716
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3716
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
اس مقام پر قرابت سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔مرد ہوں یا عورتیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد،حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کی اولاد،حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد ،حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کی اولاد ،ابوسفیان بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کی اولاد اور نوفل بن حارث اور آپ کی اولاد وغیرہ ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مناقب کا بیان بطور قرابت کے ہے۔ویسے ان کے متعلق ایک مستقل عنوان بھی ہے جو آئندہ ذکر ہوگا۔ان کے متعلق معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی حدیث نمبر۔3624۔کے تحت متصل سند سے بیان کیاہے۔
اور آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ فاطمہ ؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں، رمضان 2 ہجری میں ان کا نکاح حضرت علی ؓسے ہوا، ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی، حضرت حسن وحسین ؓآپ ہی کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ 28سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد آپ نے انتقال فرمایا،ؓ و ارضاہا۔حافظ رحمہ اللہ نے کہا کہ باب کا مطلب اسی فقرہ ( قرابت ) سے نکلتا ہے، اور یہاں قرابت والوں سے عبدالمطلب کی اولاد مراد ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کودیکھا یا آپ کی صحبت میں رہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسین ؓ، حضرت محسن ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ، ان کی صاحبزادی ام کلثومؓ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ حضرت جعفر اور ان کی اولاد ، حمزہ بن عبدالمطلب ان کی اولاد یعلیٰ ، عمدہ، امامہ، عباس بن عبدالمطلب ، ان کے بیٹے فضل، عبداللہ ، قثثعم، عبید اللہ، حارث ، سعید، عبدالرحمن، کثیر، عون ، تمام ان کی بیٹیاں ام احبیبہ، آمنہ، صفیہ، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ، ان کی اولاد جعفر، نوفل، ان کے بیٹے مغیرہ ، حارث ، عبدالمطلب کی بیٹیاں ثقیلہ، امیمہ، ارویٰ، صفیہ، یہ سب لوگ اور ان کی اولاد قیامت تک آنحضرت ﷺکی قرابت والوں میں داخل ہیں۔ ( وحیدی
حدیث ترجمہ:
انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے ) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو ثابت کیا ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے محبت کرناایمان کا تقاضا ہے۔ان قرابت داروں میں سرفہرست حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہیں۔انھیں بلاوجہ ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرناہے،اس لیے انھیں خوش رکھنے کے لیے انتہائی کوشش کی جائے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا:میرے اہل بیت میں سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ مجھ سے ملاقات کریں گی،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ ؓوفات پاگئیں۔اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
ان کے متعلق نبی کریمﷺ نے فرمایا: "فاطمہ ؓ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
توانہوں نے بتایا کہ پہلے مجھ سے حضور ﷺ نے آہستہ سے یہ فرمایا تھا کہ حضور ﷺ اپنی اسی بیماری میں وفات پاجائیں گے ، میں اس پر رونے لگی ، پھر مجھ سے حضور ﷺ نے آہستہ سے فرمایا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں آپ ﷺ سے جاملوں گی، اس پر میں ہنسی تھی ۔
حدیث حاشیہ:
جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویساہی ہوا کہ آپ کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کا انتقال ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے یہ خبروحی الٰہی کے ذریعہ سے دی تھی کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ہاں اللہ پاک کی طرف سے جو معلوم ہوجاتا وہ فرماتے اور پھر وہ حرف بہ حرف پورا ہوجاتا ۔ عالم الغیب اس کو کہتے ہیں جو خود بخود بغیر کسی کے بتلائے غیب کی خبریں پیش کرسکے، یہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور کوئی نبی وولی غیب دان نہیں ہیں۔ ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اعلان کرادیا ہے کہ کہہ دو میں غیب جاننے والا نہیں ہوں۔ اگر آپ غیب داں ہوتے تو جنگ احد کا عظیم حادثہ پیش نہ آتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
she replied, "The Prophet (ﷺ) spoke to me in secret and informed me that he would die in the course of the illness during which he died, so I wept. He again spoke to me in secret and informed me that I would be the first of his family to follow him (after his death) and on that I laughed."