Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Az-Zubair bin Al-'Awwam رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ وہ نبی کریم ﷺکے حواری تھے اور انہیں ( حضرت عیسیٰ ؑکے حواریین کو ) حواریین ان کے سفید کپڑوں کی وجہ سے کہتے ہیں ( بعض لوگوں نے ان کو دھوبی بتلایاہے )آپ کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے، ان کی والدہ حضرت صفیہؓ عبدالمطلب کی بیٹی اور حضور ﷺ کی پھوپھی ہیں، سولہ سال کی عمر میں اسلام لائے ، ان کے چچا نے دھوئیں میںان کا دم گھونٹ دیا تاکہ یہ اسلام چھوڑدیں، مگر یہ ثابت قدم رہے، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، جملہ غزوات میں شریک رہے۔ لمبے قد اور گورے رنگ کے تھے۔ ایک ظالم عمر و بن جرموزنامی نے بصرہ کی سرزمین پر 36 ھ میں بعمر چونسٹھ سال ان کو شہید کردیا، وادی سباع میں دفن ہوئے، پھر ان کو بصرہ میں منتقل کیا گیا۔ ( ؓ)
3721.
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ یرموک کے دن نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے حضرت زبیر ؓ سے کہا: آپ حملہ کیوں نہیں کرتے تاکہ آپ کے ساتھ مل کر ہم بھی حملہ کریں؟ چنانچہ حضرت زبیر نے ان رومیوں پر حملہ کیا تو اس موقع پر کفار نے دوکاری زخم آپ کے شانے پر لگائے۔ ان دونوں کے درمیان وہ زخم تھا جو بدر کے موقع پر آپ کو لگاتھا۔ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں بچپن میں ان زخموں کے اندر اپنی انگلیاں داخل کرکے کھیلا کرتا تھا۔
تشریح:
یرموک علاقہ شام میں ایک مقام کا نام ہے ،اس جگہ رومیوں کے ساتھ بہت بڑا معرکہ برپا ہوا تھا۔حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں رومیوں کے خلاف یہ جنگ لڑی گئی۔لشکر اسلام کے سربراہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی۔بہت سا مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔اس لڑائی میں حضرت زبیربن عوام ؓ نے دوسرے جاں نثاروں کے ساتھ اپنی بہادری اور جان نثاری کے جوہر دکھائے۔آپ جنگ جمل کو خیر باد کہہ کر مدینہ طیبہ واپس آرہےتھے کہ وادی سباع میں عمرو بن جرموز نامی شخص نے آپ کو قتل کردیا۔حضرت علی ؓ کو جب خیبر دینے کے لیے حاضر ہوا توآپ نے اس کے متعلق فرمایا:اسے دوزخ کی خوشخبری سنادو۔آپ کو10 جمادی الاولیٰ 36ہجری بمطابق 25 نومبر 656ء کو شہید کیا گیا۔شہادت کے دن ان کی عمر 77 برس کی تھی۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه ۔۔۔ان کے ترکے میں جو اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی، اس کی تفصیل پہلے کتاب الجہاد میں گزرچکی ہے۔امام بخاری ؒ نے اس پر مستقل ایک عنوان قائم کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3580
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3721
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3721
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3721
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت زبیر بن عوام قریشی ہیں۔ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔آپ کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔آپ سولہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپناحواری قراردیا۔ویسے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے فدائی تھے ،مگر بعض خصوصیات کی وجہ سے آپ نے یہ لقب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس معلق روایت کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نمبر۔4665 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فدائیوں کو حواری کہا گیا ہے، اس لیے کہ ان کے اندر اخلاص اورفدائیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ وہ نبی کریم ﷺکے حواری تھے اور انہیں ( حضرت عیسیٰ ؑکے حواریین کو ) حواریین ان کے سفید کپڑوں کی وجہ سے کہتے ہیں ( بعض لوگوں نے ان کو دھوبی بتلایاہے )آپ کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے، ان کی والدہ حضرت صفیہؓ عبدالمطلب کی بیٹی اور حضور ﷺ کی پھوپھی ہیں، سولہ سال کی عمر میں اسلام لائے ، ان کے چچا نے دھوئیں میںان کا دم گھونٹ دیا تاکہ یہ اسلام چھوڑدیں، مگر یہ ثابت قدم رہے، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، جملہ غزوات میں شریک رہے۔ لمبے قد اور گورے رنگ کے تھے۔ ایک ظالم عمر و بن جرموزنامی نے بصرہ کی سرزمین پر 36 ھ میں بعمر چونسٹھ سال ان کو شہید کردیا، وادی سباع میں دفن ہوئے، پھر ان کو بصرہ میں منتقل کیا گیا۔ ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ یرموک کے دن نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے حضرت زبیر ؓ سے کہا: آپ حملہ کیوں نہیں کرتے تاکہ آپ کے ساتھ مل کر ہم بھی حملہ کریں؟ چنانچہ حضرت زبیر نے ان رومیوں پر حملہ کیا تو اس موقع پر کفار نے دوکاری زخم آپ کے شانے پر لگائے۔ ان دونوں کے درمیان وہ زخم تھا جو بدر کے موقع پر آپ کو لگاتھا۔ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں بچپن میں ان زخموں کے اندر اپنی انگلیاں داخل کرکے کھیلا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یرموک علاقہ شام میں ایک مقام کا نام ہے ،اس جگہ رومیوں کے ساتھ بہت بڑا معرکہ برپا ہوا تھا۔حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں رومیوں کے خلاف یہ جنگ لڑی گئی۔لشکر اسلام کے سربراہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی۔بہت سا مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔اس لڑائی میں حضرت زبیربن عوام ؓ نے دوسرے جاں نثاروں کے ساتھ اپنی بہادری اور جان نثاری کے جوہر دکھائے۔آپ جنگ جمل کو خیر باد کہہ کر مدینہ طیبہ واپس آرہےتھے کہ وادی سباع میں عمرو بن جرموز نامی شخص نے آپ کو قتل کردیا۔حضرت علی ؓ کو جب خیبر دینے کے لیے حاضر ہوا توآپ نے اس کے متعلق فرمایا:اسے دوزخ کی خوشخبری سنادو۔آپ کو10 جمادی الاولیٰ 36ہجری بمطابق 25 نومبر 656ء کو شہید کیا گیا۔شہادت کے دن ان کی عمر 77 برس کی تھی۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه ۔۔۔ان کے ترکے میں جو اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی، اس کی تفصیل پہلے کتاب الجہاد میں گزرچکی ہے۔امام بخاری ؒ نے اس پر مستقل ایک عنوان قائم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریمﷺ کےحواری(مددگار) تھے۔ حواریوں کو حواری اس لیے کہا جاتاہے کہ ان کے کپڑے سفید تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبردی اور انہیں ان کے والد نے کہ جنگ یرموک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے حضرت زبیربن عوام ؓ سے کہا آپ حملہ کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کریں ۔ چنانچہ انہوں نے ( رومیوں نے ) آپ کے دوکاری زخم شانے پر لگائے ۔ درمیان میں وہ زخم تھا جو بدر کے موقع پر آپ کو لگا تھا ۔ عروہ نے کہا کہ ( یہ زخم اتنے گہرے تھے کہ اچھے ہوجانے کے بعد ) میں بچپن میں ان زخموں کے اندر اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): On the day of the battle of Al-Yarmuk, the companions of the Prophet (ﷺ) said to Az-Zubair, "Will you attack the enemy vigorously so that we may attack them along with you?" So Az-Zubair attacked them, and they inflicted two wounds over his shoulder, and in between these two wounds there was an old scar he had received on the day of the battle of Badr When I was a child, I used to insert my fingers into those scars in play.