Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: (Narrations) about Talha bin 'Ubaidullah رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر ؓ نے ان کے متعلق کہا کہ نبی کریم ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔ان کی کنیت ابومحمد قریشی ہے، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، غزوہ احد میں انہوں نے آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھوں کو بطور ڈھال پیش کردیا۔ ہاتھوں پر 75 زخم آئے ، انگلیاں سن ہوگئیں مگر آنحضرتﷺ کے چہرہ انور کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہے۔ حضرت طلحہ رضی ؓ حسین چہرہ گندم گوں بالوں والے تھے۔ جنگ جمل میں بعمر64 سال شہید ہوئے۔ ؓ و ارضاہ۔ان کا نسب یہ تھا طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن کعب بن مرہ، کعب میں آنحضرت ﷺکے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جنگ جمل میں شریک ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے باوجودیکہ طلحہ ان کے مخالف لشکر یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک تھے، جب ان کی شہادت کی خبر سنی تو اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہوگئی، مروان نے ان کو تیر سے شہید کیا۔ ( وحیدی )
3722.
حضرت ابوعثمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بعض ان غزوات کے وقت جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے شمولیت کی، نبی کریم ﷺ کے ہمراہ حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا تھا۔ یہ بات خود ان کی بیان کردہ حدیث میں ہے۔
تشریح:
1۔جنگ اُحد کا واقعہ کہ جب مسلمان بھگدڑ میں مبتلا ہوئے تو اس وقت صرف حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ کے علاوہ اور کوئی بھی آپ کے ہم رکاب نہ تھا۔انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی۔2۔اس حدیث میں حضرت طلحہ ؓ کی منقبت کابیان ہے کہ آپ کس قدر بہادر اور جفاکش تھے۔اس کی تفصیل آئندہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت عثمان ؓ سے پوچھا :آپ کو اس واقعے کا علم کیسے ہوا؟توانھوں نے بتایا کہ ان حضرات نے مجھے خود اس سے آگاہ کیا تھا۔(فتح الباري:105/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3581
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3722
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3722
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3722
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
ان کی کنیت ابومحمد ہے۔والدہ کانام صبعہ بنت حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے جوحضر ت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیر ہیں۔آپ کا تعلق قریشی خاندان سے ہے۔عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔غزو ہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھوں کو بطور ڈھال پیش کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔جنگ جمل میں شہید ہوئے۔مذکورہ تعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے حدیث نمبر:3700 کے تحت بیان کی ہے۔
اور عمر ؓ نے ان کے متعلق کہا کہ نبی کریم ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔ان کی کنیت ابومحمد قریشی ہے، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، غزوہ احد میں انہوں نے آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھوں کو بطور ڈھال پیش کردیا۔ ہاتھوں پر 75 زخم آئے ، انگلیاں سن ہوگئیں مگر آنحضرتﷺ کے چہرہ انور کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہے۔ حضرت طلحہ رضی ؓ حسین چہرہ گندم گوں بالوں والے تھے۔ جنگ جمل میں بعمر64 سال شہید ہوئے۔ ؓ و ارضاہ۔ان کا نسب یہ تھا طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن کعب بن مرہ، کعب میں آنحضرت ﷺکے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جنگ جمل میں شریک ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے باوجودیکہ طلحہ ان کے مخالف لشکر یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک تھے، جب ان کی شہادت کی خبر سنی تو اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی تر ہوگئی، مروان نے ان کو تیر سے شہید کیا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوعثمان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بعض ان غزوات کے وقت جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے شمولیت کی، نبی کریم ﷺ کے ہمراہ حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا تھا۔ یہ بات خود ان کی بیان کردہ حدیث میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔جنگ اُحد کا واقعہ کہ جب مسلمان بھگدڑ میں مبتلا ہوئے تو اس وقت صرف حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ کے علاوہ اور کوئی بھی آپ کے ہم رکاب نہ تھا۔انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی۔2۔اس حدیث میں حضرت طلحہ ؓ کی منقبت کابیان ہے کہ آپ کس قدر بہادر اور جفاکش تھے۔اس کی تفصیل آئندہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت عثمان ؓ سے پوچھا :آپ کو اس واقعے کا علم کیسے ہوا؟توانھوں نے بتایا کہ ان حضرات نے مجھے خود اس سے آگاہ کیا تھا۔(فتح الباري:105/7)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ طلحہ بن عبیداللہ سے راضی تھے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا ، ان سے معتمر نے ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے ابوعثمان ؓ نے بیان کیا کہ بعض ان جنگوں میں جن میں رسول اللہ ﷺ خود شریک ہوئے تھے ( احد کی جنگ میں ) آپ کے ساتھ طلحہ ؓ اور سعد ؓ کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہاتھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu 'Uthman (RA): During one of the Ghazawat in which Allah's Apostle (ﷺ) was fighting, none remained with the Prophet (ﷺ) but Talha and Sad.