باب: نبی کریم ﷺکے دامادوں کا بیان ابوالعاص بن ربیع بھی ان ہی میں سے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: Narrations about the sons-in-law of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3729.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: ’’أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔‘‘ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن عمرونے مذکورہ حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے: حضرت مسور ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے بنوشمس کے اپنے ایک داماد کاذکرکیا اور دامادی میں اس کے عمدہ اوصاف کی تعریف فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ’’انھوں نے مجھ سے جو بات کہی اسے سچا کردکھایا اور مجھ سےجووعدہ کیا اسے پورا کردکھایا۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک داماد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ ہیں جو آپ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کے خاوند تھے اس حدیث میں ان کا ذکر خیر ہے۔ مشرکین مکہ نے حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ پر دباؤ ڈالا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دیں۔ تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ اس بنا پر قرابت دامادی کی تعریف کر رہے ہیں نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے یہ شرط کی تھی کہ ان کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کریں گے انھوں نے اس شرط کو پورا کیا، شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہومگر آپ بھول گئے اور عموم جواز پر نظر رکھتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے خطبہ دیا تو انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اسی طرح حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رہا کرتے ہوئے کہا تھا:’’میری بیٹی زینب کو مدینہ طیبہ بھیج دینا۔‘‘ تو انھوں نے اس وعدے کے مطابق انھیں بھیج دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔ حضرت امامہ ؓ ان کی بیٹی تھیں جنھیں رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنے کندھوں پر اٹھالیا کرتے تھے۔ حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ یمامہ کی لڑائی میں ذوالحجہ 12ھ کو شہید ہوئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3587
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3729
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3729
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3729
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
عورت کے والدین ،بہن بھائی "اصحار"کہلاتے ہیں۔اس عنوان میں دامادی کی قرابت کا تذکرہ ہے۔
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: ’’أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔‘‘ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن عمرونے مذکورہ حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے: حضرت مسور ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے بنوشمس کے اپنے ایک داماد کاذکرکیا اور دامادی میں اس کے عمدہ اوصاف کی تعریف فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ’’انھوں نے مجھ سے جو بات کہی اسے سچا کردکھایا اور مجھ سےجووعدہ کیا اسے پورا کردکھایا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک داماد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ ہیں جو آپ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کے خاوند تھے اس حدیث میں ان کا ذکر خیر ہے۔ مشرکین مکہ نے حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ پر دباؤ ڈالا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دیں۔ تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ اس بنا پر قرابت دامادی کی تعریف کر رہے ہیں نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے یہ شرط کی تھی کہ ان کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کریں گے انھوں نے اس شرط کو پورا کیا، شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہومگر آپ بھول گئے اور عموم جواز پر نظر رکھتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے خطبہ دیا تو انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اسی طرح حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رہا کرتے ہوئے کہا تھا:’’میری بیٹی زینب کو مدینہ طیبہ بھیج دینا۔‘‘ تو انھوں نے اس وعدے کے مطابق انھیں بھیج دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔ حضرت امامہ ؓ ان کی بیٹی تھیں جنھیں رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنے کندھوں پر اٹھالیا کرتے تھے۔ حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ یمامہ کی لڑائی میں ذوالحجہ 12ھ کو شہید ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبردی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ ؓ نے بیان کیا کہ علی ؓ نے ابوجہل کی لڑکی کو ( جو مسلمان تھیں ) پیغام نکاح دیا ، اس کی اطلاع جب حضرت فاطمہ ؓ کو ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر ( جب انہیں کوئی تکلیف دے ) کسی پر غصہ نہیں آتا ۔ اب دیکھئے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ، اس پر آنحضور ﷺ نے صحابہ کو خطاب فرمایا : میں نے آپ کو خطبہ پڑھتے سنا ، پھر آپ نے فرمایا : ا بعد : میں نے ابوالعاص بن ربیع سے ( زینب ؓ کی ، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی ) شادی کی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے ( جسم کا ) ایک ٹکڑا ہے ، اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے ، خدا کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہوسکتیں ۔ چنانچہ علی ؓ نے اس شادی کا ارادہ ترک کردیا ۔ محمد بن عمر وبن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے ، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور ؓ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی ۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کردکھایا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوالعاص مقسم بن الربیع ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ ان کے نکاح میں تھیں، بدر کے دن اسلام قبول کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ آنحضرت ﷺ سے سچی محبت رکھتے تھے، جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے ان کی وفاداری کی تعریف فرمائی۔ جب حضرت ابوالعاص ؓ کا یہ حال ہے تو پھر علی ؓ سے تعجب ہے کہ وہ اپنا وعدہ کیوں پورا نہ کریں۔ ہوا یہ تھا کہ ابوالعاص ؓ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح ہوتے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ ان کے رہنے تک میں دوسری بیوی نہ کروں گا، اس شرط کو ابوالعاص نے پورا کیا۔ شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہو۔ لیکن جویریہ کو پیام دیتے وقت وہ بھول گئے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ نے عتاب کا یہ خطبہ پڑھا تو ان کو اپنی شرط یا د آگئی اور وہ اس ارادے سے باز آئے۔ بعض نے کہا کہ حضرت علی ؓ سے ایسی کوئی شرط نہیں ہوئی تھی لیکن حضرت فاطمہ ؓ بڑے رنجوں میں گرفتار تھیں۔ والدہ گزرگئیں ، تینوں بہنیں گزرگئیں، اکیلی باقی رہ گئی تھیں، اب سوکن آنے سے وہ پریشان ہوکر اندیشہ تھا کہ ان کی جان کو نقصان پہنچے۔ اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ پر عتاب فرمایا تھا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miswar bin Makhrama (RA): 'Ali demanded the hand of the daughter of Abu Jahl. Fatima heard of this and went to Allah's Apostle (ﷺ) saying, "Your people think that you do not become angry for the sake of your daughters as 'Ali is now going to marry the daughter of Abu Jahl. "On that Allah's Apostle (ﷺ) got up and after his recitation of Tashah-hud. I heard him saying, "Then after! I married one of my daughters to Abu Al-'As bin Al-Rabi' (the husband of Zainab, the daughter of the Prophet) before Islam and he proved truthful in whatever he said to me. No doubt, Fatima is a part of me, I hate to see her being troubled. By Allah, the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) and the daughter of Allah's Enemy cannot be the wives of one man." So 'Ali gave up that engagement. 'Al-Miswar further said: I heard the Prophet (ﷺ) talking and he mentioned a son-in-law of his belonging to the tribe of Bani 'Abd-Shams. He highly praised him concerning that relationship and said (whenever) he spoke to me, he spoke the truth, and whenever he promised me, he fulfilled his promise."