باب: رسول اللہ ﷺ کے غلام زید بن حارثہ ؓ کے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of Zaid bin Haritha)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اورحضرت براء ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ` نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ سے فرمایا تھا، تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔تشریح :حضرت زید بن حارثہ کی کنیت ابواسامہ ہے، ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ ہیں، جو بنی معن میں سے تھیں آٹھ سال کی عمر میں حضرت زید کو ڈاکوؤں نے اغواء کرکے مکہ میں چار سو درہم میں بیچ ڈالا۔ خریدنے والے حکیم بن حزام بن خویلد تھے جنہون نے ان کو خرید کر اپنی پھوپھی خدیجۃ الکبریٰؓ کو دے دیا۔ آنحضرت ﷺ سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کردیا ۔ ابتداء میں ان کو رسول اللہﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور ان کا نکاح اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن سے کردیا تھا۔ ، جن سے اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد زینب بنت جحش سے ان کا نکاح ہوا۔ آیت فلما قضیٰ زید منھا وطرا ( الاحزاب : 37 ) میں ان ہی کانام مذکور ہے۔ غزوہ موتہ میں بعمر 55 سال 8ہجری میں امیر لشکر کی حیثیت سے شہید کردیے گئے۔
3730.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگرتم اسامہ بن زید ؓ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے قبل ازیں اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم !وہ سرداری کے لیے نہایت ہی موزوں شخص تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے بعد یہ اسامہ ؓ مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔‘‘
تشریح:
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو امیر مقرر کیا اور ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیا تو کچھ لوگوں نے اس بنا پر اعتراض کیا کہ یہ تو آزاد کردہ غلام ہیں انھیں ہمارا قائد مقرر کردیا گیا ہے۔ اس لشکر میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ اگر کسی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ ؓ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ انھیں امیر مقرر فرماتے ۔ بالآخر غزوہ موتہ کے وقت لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ ہی اطاعت کے لائق ہیں اور اسی جنگ میں آپ کی شہادت ہوئی اس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض الموت میں روم کی طرف جانے کے لیے ایک لشکر تیار کیا جس کے امیر حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے ان پر بھی لوگوں نے اعتراض کیا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ وہ لشکر ابھی مدینہ طیبہ کے قریب ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو وہ واپس آگیا پھر حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت اسامہ ؓ کی سر براہی میں اسے روانہ کیا۔(فتح الباري:111/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3588
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3730
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3730
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3730
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ کے ہمراہ تھے۔ لوگوں نے انھیں اٹھا کر عکاز کی منڈی میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ فروخت کردیا انھوں نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو انھوں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو ہبہ کردیے پھر ان کا نکاح حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا جس سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کا نکاح کردیا جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے۔"( الاحزاب 33۔37۔)غزوہ موتہ میں امیر لشکر کی حیثیت سے 8ہجری میں شہید ہوئے حضرت براہ بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی حدیث نمبر۔2699۔کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
´اورحضرت براء ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ` نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ سے فرمایا تھا، تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔تشریح :حضرت زید بن حارثہ کی کنیت ابواسامہ ہے، ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ ہیں، جو بنی معن میں سے تھیں آٹھ سال کی عمر میں حضرت زید کو ڈاکوؤں نے اغواء کرکے مکہ میں چار سو درہم میں بیچ ڈالا۔ خریدنے والے حکیم بن حزام بن خویلد تھے جنہون نے ان کو خرید کر اپنی پھوپھی خدیجۃ الکبریٰؓ کو دے دیا۔ آنحضرت ﷺ سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کردیا ۔ ابتداء میں ان کو رسول اللہﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا اور ان کا نکاح اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن سے کردیا تھا۔ ، جن سے اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد زینب بنت جحش سے ان کا نکاح ہوا۔ آیت فلما قضیٰ زید منھا وطرا ( الاحزاب : 37 ) میں ان ہی کانام مذکور ہے۔ غزوہ موتہ میں بعمر 55 سال 8ہجری میں امیر لشکر کی حیثیت سے شہید کردیے گئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگرتم اسامہ بن زید ؓ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے قبل ازیں اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم !وہ سرداری کے لیے نہایت ہی موزوں شخص تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے بعد یہ اسامہ ؓ مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو امیر مقرر کیا اور ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیا تو کچھ لوگوں نے اس بنا پر اعتراض کیا کہ یہ تو آزاد کردہ غلام ہیں انھیں ہمارا قائد مقرر کردیا گیا ہے۔ اس لشکر میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ اگر کسی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ ؓ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ انھیں امیر مقرر فرماتے ۔ بالآخر غزوہ موتہ کے وقت لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ ہی اطاعت کے لائق ہیں اور اسی جنگ میں آپ کی شہادت ہوئی اس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض الموت میں روم کی طرف جانے کے لیے ایک لشکر تیار کیا جس کے امیر حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے ان پر بھی لوگوں نے اعتراض کیا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ وہ لشکر ابھی مدینہ طیبہ کے قریب ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو وہ واپس آگیا پھر حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت اسامہ ؓ کی سر براہی میں اسے روانہ کیا۔(فتح الباري:111/7)
ترجمۃ الباب:
حضرت براء ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا کہ (آپ نے حضرت زید سے فرمایا: )"تو ہمارا بھائی اور دوست ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک فوج بھیجی اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا ، ان کے امیر بنائے جانے پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اگر آج تم اس کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کررہے ہوتو اس سے پہلے اس کے باپ کے امیر بنائے جانے پر بھی تم نے اعتراض کیا تھا اور خدا کی قسم وہ ( زید ؓ ) امارت کے مستحق تھے اور مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے ۔ اور یہ ( اسامہ ؓ ) اب ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
یہ لشکر آنحضرت ﷺ نے مرض الموت میں تیار کیا تھا اور حکم فرمایا تھا کہ فوراً ہی روانہ ہوجائے مگر بعد میں جلدہی آپ کی وفات ہوگئی۔ لشکر مدینہ کے قریب ہی سے واپس لوٹ آیا۔ پھرحضرت ابوبکر ؓنے اپنی خلافت میں اس کو تیار کرکے روانہ کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) sent an army under the command of Usama bin Zaid. When some people criticized his leadership, the Prophet (ﷺ) said, "If you are criticizing Usama's leadership, you used to criticize his father's leadership before. By Allah! He was worthy of leadership and was one of the dearest persons to me, and (now) this (i.e. Usama) is one of the dearest to me after him (i.e. Zaid)."