باب: حضرت عبداللہ بن عمربن خطاب ؓ کے فضائل کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of 'Abdullah bin 'Umar رضي الله عنهما)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3738.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں جب کوئی شخص خواب دیکھتا تو اسے نبی ﷺ سے بیان کرتا۔ میری خواہش تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں تو اسے نبی ﷺ سے عرض کروں۔ میں ان دنوں غیرشادی شدہ اور نو خیز تھا اور نبی ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کے اندر ہی سویا کرتاتھا، چنانچہ میں نے خواب میں دو فرشتوں کو دیکھا جو مجھے پکڑکر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بل دارکنویں کی طرح پیچ در پیچ تھی اور کنویں ہی کی طرح اس کے دوکنارے بھی تھے۔ اس کے اندر کچھ ایسے لوگ تھے جنھیں میں پہچانتا تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی کہنے لگا: میں دوزخ سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے ایک دوسرا فرشتہ ملا۔ اس نے مجھے کہا : کسی قسم کی فکرنہ کرو۔ میں نے اپنا یہ خواب حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3596
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3738
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3738
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3738
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ اپنے والد گرامی حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہمراہ مسلمان ہوئے جبکہ اس وقت آپ نابالغ تھے۔غزوہ خندق میں آپ شریک ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار اور آپ کی سنت پاکیزہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے فتوی دینے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے محرم 73ھ۔ بمطابق مئی 693ء میں وفات پائی۔ مہاجرین کے قبرستان مقام ذی طویٰ میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے مناقب میں ایک ہی حدیث کی مختلف روایات نقل کی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی سیدہ حفصہ ؓ سے فرمایاتھا۔"تمھارا بھائی بڑا نیک آدمی ہے کاش !وہ رات کے قیام کا اہتمام کرے۔"اس کے بعد انھوں نے کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑی ۔۔۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
علم اور زہد وتقویٰ میں یہ یکتائے روزگار تھے، اپنی حیات طیبہ میں ایک ہزار سے بھی زائد غلاموں کو آزاد کرایا، 73ھ میں بعمر 84 یا 86 سال ان کی شہادت ہوئی۔ حجاج نے اپنے اندرونی کینہ کی بنا پر زہر میں بجھے ہوئے ایک نیزے سے شہید کرادیا۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ، ان کی کنیت ابوعبد الرحمن تھی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں جب کوئی شخص خواب دیکھتا تو اسے نبی ﷺ سے بیان کرتا۔ میری خواہش تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں تو اسے نبی ﷺ سے عرض کروں۔ میں ان دنوں غیرشادی شدہ اور نو خیز تھا اور نبی ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کے اندر ہی سویا کرتاتھا، چنانچہ میں نے خواب میں دو فرشتوں کو دیکھا جو مجھے پکڑکر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بل دارکنویں کی طرح پیچ در پیچ تھی اور کنویں ہی کی طرح اس کے دوکنارے بھی تھے۔ اس کے اندر کچھ ایسے لوگ تھے جنھیں میں پہچانتا تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی کہنے لگا: میں دوزخ سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے ایک دوسرا فرشتہ ملا۔ اس نے مجھے کہا : کسی قسم کی فکرنہ کرو۔ میں نے اپنا یہ خواب حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحق بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے زہری نے ، ان سے سالم نے اورا ن سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب موجود تھے تو جب بھی کوئی شخص کوئی خواب دیکھتا ، حضور ﷺ سے اسے بیان کرتا ، میرے دل میں بھی یہ تمنا پیدا ہوگئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور حضور اکرم ﷺ سے بیان کروں ۔ میں ان دنوں کنوارا تھا اور نوعمر بھی تھا ۔ میں آپ کے زمانے میں مسجد میں سویا کرتا تھا تو میں نے خواب میں دوفرشتوں کو دیکھا کہ مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ وہ بل دار کنویں کی طرح پیچ درپیچ تھی ۔ کنویں ہی کی طرح اس کے بھی دوکنارے تھے اور اس کے اندر کچھ ایسے لوگ تھے جنہیں میں پہچانتا تھا ۔ میں اسے دیکھتے ہی کہنے لگا دوزخ سے میں اللہ کی پناہ مانگتاہوں ، دوزخ سے میں اللہ کی پناہ مانگتاہوں ۔ اس کے بعد مجھ سے ایک دوسرے فرشتے کی ملاقات ہوئی ، اس نے مجھ سے کہا کہ خوف نہ کھا ۔ ، میں نے اپنا یہ خواب حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): If a man saw a dream during the lifetime of the Prophet (ﷺ) he would narrate it to the Prophet. Once I wished to see a dream and narrate it to the Prophet (ﷺ) I was young, unmarried, and used to sleep in the Mosque during the lifetime of the Prophet. I dreamt that two angels took me and went away with me towards the (Hell) Fire which looked like a well with the inside walls built up, and had two side-walls like those of a well. There I saw some people in it whom I knew. I started saying, "I seek Refuge with Allah from the (Hell) Fire, I seek Refuge with Allah from the (Hell) Fire." Then another angel met the other two and said to me, "Do not be afraid." I narrated my dream to Hafsah (RA) who, in her turn,