Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The virtues of ‘Ammar and Hudhaifa رضي الله عنهما)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3742.
حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں شام کے علاقے میں آیا، دورکعت نماز پڑھی، پھر اللہ سے دعا کی: اے اللہ!مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فرما۔ پھر میں ایک قوم کے پاس گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا: یہ بزرگ کون ہیں؟لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابو درداء ؓ ہیں۔ میں نے کہا: آج میں نے اللہ سے دعاکی تھی کہ مجھےنیک ساتھی عنایت کرے۔ تو اللہ تعالیٰ نے، آپ کو، مجھے عطا فرمایاہے، حضرت ابودرداء ؓ نے فرمایا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟میں نے کہا: اہل کوفہ سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم میں آپ ﷺ کے نعلین بردار، صاحب و سادہ اورآپ کا لوٹا اٹھانے والے ابن اُم عبدنہیں ہیں؟کیا تمھارے ہاں وہ شخص نہیں ہے جسے اپنے نبی ﷺ کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دے رکھی ہے؟کیا تمھارے اندروہ ہستی نہیں جو نبی ﷺ کی راز داں تھی۔ جن رازوں کو ان کے سوااور کوئی نہیں جانتا تھا؟پھر انھوں نےپوچھا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ سورت کس طرح پڑھتے تھے؟ میں نے انھیں پڑھ کر سنایا: ﴿وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾حضرت ابو درداء ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے مجھے بھی اسی طرح پڑھایا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3598
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3742
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3742
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3742
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد گرامی کا نام حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور والدہ کا ماجدہ کا نام حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے آپ اور آپ کے والدین سابقین اولین میں سے ہیں انھیں اسلام لانے کی وجہ سے بہت تکلیف پہنچائی گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے تو انھیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے۔"آل یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! صبر کرو تمھاری جزا صرف جنت ہے۔"جنگ صفین میں ان کی شہادت ہوئی۔سن وفات 37 ہجری مطابق 657ءہے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کبار صحابہ میں سے ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور والد یمان دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے ۔غزوہ احد میں شرکت کی۔ ان کے والد گرامی غزوہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں غلطی سے شہید ہوگئے جس کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آخر دم تک افسوس رہا رسول اللہ ﷺ کے خاص راز دان تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتنوں کے متعلق ان سے معلومات لی تھیں جو انھوں نے تفصیل سے بیان کیں آپ شوال 36 ہجری مطابق مارچ 657ء میں فوت ہوئے۔
حضرت عمار بن یاسر عنسی ہیں، بنو مخزوم کے آزاد کردہ غلام اور حلیف تھے۔ ان کے مفصل حالات پیچھے بیان ہوچکے ہیں، جنگ صفین میں حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے، 37ھ میں بعمر 93 سال وہیں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالٰی عنہ و ارضاہ۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ رسول اللہﷺ کے خاص راز داروں میں سے ہیں۔ شہر مدائن میں ان کی وفات ہوئی۔ ، ان کی وفات کا واقعہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے چالیس رات بعد 35ھ میں پیش آیا۔
حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں شام کے علاقے میں آیا، دورکعت نماز پڑھی، پھر اللہ سے دعا کی: اے اللہ!مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فرما۔ پھر میں ایک قوم کے پاس گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا: یہ بزرگ کون ہیں؟لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابو درداء ؓ ہیں۔ میں نے کہا: آج میں نے اللہ سے دعاکی تھی کہ مجھےنیک ساتھی عنایت کرے۔ تو اللہ تعالیٰ نے، آپ کو، مجھے عطا فرمایاہے، حضرت ابودرداء ؓ نے فرمایا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟میں نے کہا: اہل کوفہ سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم میں آپ ﷺ کے نعلین بردار، صاحب و سادہ اورآپ کا لوٹا اٹھانے والے ابن اُم عبدنہیں ہیں؟کیا تمھارے ہاں وہ شخص نہیں ہے جسے اپنے نبی ﷺ کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دے رکھی ہے؟کیا تمھارے اندروہ ہستی نہیں جو نبی ﷺ کی راز داں تھی۔ جن رازوں کو ان کے سوااور کوئی نہیں جانتا تھا؟پھر انھوں نےپوچھا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ سورت کس طرح پڑھتے تھے؟ میں نے انھیں پڑھ کر سنایا: ﴿وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾حضرت ابو درداء ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے مجھے بھی اسی طرح پڑھایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں جب شام آیا تو میں نے دورکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کی ، کہ اے اللہ ! مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فر ۔ پھر میں ایک قوم کے پاس آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا ، تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے ، میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابودرداء ؓ ہیں ، اس پر میں نے عرض کیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ کوئی نیک ساتھی مجھے عطا فر ، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجھے عنایت فرمایا ۔ انہوں نے دریافت کیا ، تمہارا وطن کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کوفہ ہے ۔ انہوں نے کہا کیا تمہارے یہاں ابن ام عبد ، صاحب النعلین ، صاحب وسادہ ، و مطہرہ ( یعنی عبداللہ بن مسعود ؓ ) نہیں ہیں ؟ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جاسکتا ۔ ( مراد عمار ؓ سے تھی ) کیا تم میں وہ نہیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے بہت سے بھیدوں کے حامل ہیں جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ ( یعنی حذیفہ ؓ ) اس کے بعد انہوں نے دریافت فرمایا عبداللہ ؓ آیت ﴿واللیل اذا یغشیٰ﴾ کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں ؟ میں نے انہیں پڑھ کر سنائی کہ﴿وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے مجھے بھی اسی طرح یاد کرایا تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Alqama (RA): I went to Sham and offered a two-Rak'at prayer and then said, "O Allah! Bless me with a good pious companion." So I went to some people and sat with them. An old man came and sat by my side. I asked, "Who is he?" They replied, "(He is) Abu-Ad-Darda.' I said (to him), "I prayed to Allah to bless me with a pious companion and He sent you to me." He asked me, "From where are you?" I replied, "From the people of Al-Kufa." He said, "Isn't there amongst you Ibn Um 'Abd, the one who used to carry the shoes, the cushion(or pillow) and the water for ablution? Is there amongst you the one whom Allah gave Refuge from Satan through the request of His Prophet. Is there amongst you the one who keeps the secrets of the Prophet (ﷺ) which nobody knows except him?" Abu Darda further asked, "How does 'Abdullah (bin Mas'ud) recite the Sura starting with, 'By the Night as it conceals (the light)." (92.1) Then I recited before him: 'By the Night as it envelops: And by the Day as it appears in brightness; And by male and female.' (91.1-3) On this Abu Ad-Darda' said, "By Allah, the Prophet (ﷺ) made me recite the Sura in this way while I was listening to him (reciting it)."