Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of Salim, the freed slave of Abu Hudhaifa رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3758.
حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا ذکر ہوا تو انھوں نے فرمایا: میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’قرآن مجید چار آدمیوں سے پڑھو: عبداللہ بن مسعود ؓ سے، اور ان کا نام آپ ﷺ نے پہلے ذکر کیا، اور سالم سے، جو ابوحذیفہ ؓ کے آزاد کردہ ہیں، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل ؓ سے۔‘‘ مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے پہلے ابی بن کعب ؓ کا نام لیا تھا یا حضرت معاذ بن جبل ؓ کا۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ نے ان چار صحابہ کرام ؓ کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ قرآن کریم کے ا لفاظ کو ضبط کرنے،ان کی ادائیگی اور ان کے معافی سمجھنے میں انھیں بڑی مہارت تھی اگرچہ دوسرے صحابہ کرام ؓ قرآن کریم کے معافی سمجھنے میں ان سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔یہ حضرات رسول اللہ ﷺ سے بالمشافہ قرآن پڑھتے تھے۔ان صحابہ کرام میں حضرت سالم ؓ بھی شامل ہیں جو بڑے فاضل اور قرآن کے قاری تھے۔(فتح الباري:129/7) 2۔واضح رہے کہ حدیث میں چار کا عددحصر کے لیے نہیں ،بلکہ یہ ان کی منقبت پردلالت کرتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3616
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3758
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3758
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3758
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت سالم کے والد کا نام معقل ہے۔آپ انصار کی ایک عورت کے غلام تھے،جب اس عورت سے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکاح کیا تو اسے منہ بولا بیٹا بنالیا۔بڑی عمر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کا دودھ پیا،جس کا ذکر کتاب الرضاع میں آئے گا۔حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے بہترین قاری تھے اور جو مہاجرین مکہ سے ہجرت کرکے آئے،حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد قباء میں ان کی امامت کے فرائض سرانجام دیے تھے۔انھوں نے جنگ یمامہ میں 12ہجری کو3 شہادت پائی۔( فتح الباری 315/4۔)
حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا ذکر ہوا تو انھوں نے فرمایا: میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’قرآن مجید چار آدمیوں سے پڑھو: عبداللہ بن مسعود ؓ سے، اور ان کا نام آپ ﷺ نے پہلے ذکر کیا، اور سالم سے، جو ابوحذیفہ ؓ کے آزاد کردہ ہیں، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل ؓ سے۔‘‘ مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے پہلے ابی بن کعب ؓ کا نام لیا تھا یا حضرت معاذ بن جبل ؓ کا۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ نے ان چار صحابہ کرام ؓ کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ قرآن کریم کے ا لفاظ کو ضبط کرنے،ان کی ادائیگی اور ان کے معافی سمجھنے میں انھیں بڑی مہارت تھی اگرچہ دوسرے صحابہ کرام ؓ قرآن کریم کے معافی سمجھنے میں ان سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔یہ حضرات رسول اللہ ﷺ سے بالمشافہ قرآن پڑھتے تھے۔ان صحابہ کرام میں حضرت سالم ؓ بھی شامل ہیں جو بڑے فاضل اور قرآن کے قاری تھے۔(فتح الباري:129/7) 2۔واضح رہے کہ حدیث میں چار کا عددحصر کے لیے نہیں ،بلکہ یہ ان کی منقبت پردلالت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمر وبن مرہ نے ، ان سے ابراہیم نے اوران سے مسروق نے کہ عبداللہ بن عمر و ؓ کے یہاں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ ، آنحضرت ﷺ نے ابتداء عبداللہ بن مسعود ؓ سے ہی کی اور ابوحذیفہ ؓ کے مولیٰ سالم ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عہنم سے ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے پہلے ابی بن کعب کا ذکر کیا یا معاذ بن جبل ؓ کا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت سالم ؓ اصل میں فارسی تھے اور حضرت حذیفہ ؓ کی بیوی کے غلام تھے، بڑے فاضل اور قاری قرآن تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Masruq (RA): 'Abdullah (bin Mas'ud) was mentioned before 'Abdullah bin 'Amr (RA). The latter said, "That is a man I continue to love because I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, ' Learn the recitation of the Qur'an from (any of these) four persons: 'Abdullah bin Masud, Salim the freed slave of Abu Hudhaifa, Ubai bin Kab (RA) , and Muadh bin Jabal." I do not remember whether he mentioned Ubai first or Muadh.