Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The merits of Al-Ansar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ نے فرمایا جو لوگ پہلے ہی ایک گھر میں ( یعنی مدینہ میں ) جم گئے ایمان کو بھی جمادیا جو مسلمان ان کے پاس ہجرت کرکے جاتے ہیں اس سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو ( مال غنیمت میں سے ) جو ہاتھ آئے اس سے ان کا دل نہیں کڑھتا بلکہ اور خوش ہوتے ہیں الحمد للہ آج 6 ذی قعدہ 1391 ھ کو مسجد اہل حدیث سورت اور مسجد اہل حدیث دریاؤ میں پارہ نمبر 15 کی تسوید کا کام شروع کررہاہوں اللہ پاک قلم کو لغزشوں سے بچائے اور فہم حدیث کے لیے دل ودماغ میں روشنی عطافرمائے۔ مسجد اہل حدیث دریاؤ میں فن حدیث و تفسیر سے بیشتر کتب کا بہترین ذخیرہ محفوظ ہے۔ اللہ پاک ان بزرگوں کو ثواب عظیم بخشے جنہوں نے اس پاکیزہ ذخیرہ کو یہاں جمع فرمایا ۔ موجودہ اکابر جماعت دریاؤ کو بھی اللہ پاک جزائے خیر دے جو اس ذخیرہ کی حفاظت کماحقہ فرماتے رہتے ہیں۔ لفظ انصار ناصر کی جمع ہے جس کے معنی مددگار کے ہیں، قبائل مدینہ اوس اور خزرج جب مسلمان ہوئے اور نصرت اسلام کے لیے آنحضرت ﷺ سے عہد کیا تو اللہ پاک نے اپنے رسول پاک ﷺکی زبان فیض ترجمان پر لفظ انصار سے ان کو موسوم فرمایا، حافظ صاحب فرماتے ہیں: ھو اسم اسلامی سمی بہ النبی ﷺالاوس والخزرج، وحلفاءھم کما فی حدیث انس والاوس ینسبون الی اوس بن حارثہ والخزرج ینسبون الی الخزرج بن حارثۃ وھما ابنا قیلۃ وھو اسم امھم وابوھم ھو حارثۃ بن عمر وبن عامر الذی یجمع الیہ انساب الازد ( فتح الباری ) یعنی انصاراسلامی نام ہے رسول اللہﷺ نے اوس اور خزرج اور ان کے حلیف قبائل کا یہ نام رکھا جیسا کہ حدیث انس ؓ میں مذکور ہے، اوس قبیلہ اپنے دادا اوس بن حارثہ کی طرف منسوب ہے اور خزرج ، خزرج بن حارثہ کی طرف جو دونوں بھائی ایک عورت قیلہ نامی کے بیٹے ہیں ان کے باپ کانام حارثہ بن عمرو بن عامر ہے جس پر قبیلہ ازد کی جملہ شاخوں کے نسب نامے جاکر مل جاتے ہیں۔
3777.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے بعاث کی جنگ کو اپنے رسول ﷺ کے مفاد میں پہلے ہی مقرر کر رکھا تھا، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہ قبائل آپس میں پھوٹ کا شکار تھے اور ان کے کچھ سردار قتل ہو چکے تھے اور کچھ زخموں سے چور تھے۔ اللہ تعالٰی نے اس جنگ کو اپنے رسول ﷺ کے مفاد میں پہلے ہی مقرر کیا تھا تاکہ (آپ کے مدینہ تشریف لاتے ہی) یہ لوگ مسلمان ہو جائیں۔
تشریح:
بعاث۔مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے جہاں اوس اور خزرج کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی تھی، قبیلہ اوس کے رئیس حضرت اسیدؓ کے والد خضیر تھے جبکہ خزرج کے سرادر عمر بن نعمان فیاض تھے۔ یہ دونوں اس جنگ میں مارے گئے۔ پہلے خزرج کو فتح ہوئی، پھر خضیر نے قبیلہ اوس کومضبوط کیا تو ان کا پلہ بھاری رہا۔ یہ لڑائی رسول اللہﷺ کی ہجرت سے پانچ سال پہلے ہو چکی تھی۔اس میں دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے۔ اسلام کا ظہور ہواتو رسول اللہﷺکی آمد کی برکت سے یہ لڑائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی گویا ان کا قتل ہو جانا اشاعت اسلام (اسلام پھیلنے) کا پیش خیمہ تھا۔ اگر یہ زندہ رہتے تو ان کا اقدام اسلام کے سخت خلاف ہوتا۔ ان سرداروں میں سے ایک عبد اللہ بن ابی تھا جس نے منافقت کا روپ دھارا۔ درج ذیل آیت کریمہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر فرمائی ۔ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ (آل عمران:103/3)
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انصار اولین کی کمال فضیلت بیان فرمائی ہے کہ جو مسلمانوں کے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آنے سے پہلے بیعت عقبہ کی روسے ایمان لاچکے تھے اور انھوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگالیا اور مہاجرین کی آباد کاری کے لیے وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد گھر بار اور باغات میں شریک کرلیا۔ اس ایثار نے مہاجرین کے دلوں میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی موت کے وقت یہ وصیت کی کہ میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھلا ۔خلیفہ کو چاہیے کہ ان میں سے جو نیک ہیں ان کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔( صحیح البخاری التفسیر حدیث 4888۔)
اللہ نے فرمایا جو لوگ پہلے ہی ایک گھر میں ( یعنی مدینہ میں ) جم گئے ایمان کو بھی جمادیا جو مسلمان ان کے پاس ہجرت کرکے جاتے ہیں اس سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو ( مال غنیمت میں سے ) جو ہاتھ آئے اس سے ان کا دل نہیں کڑھتا بلکہ اور خوش ہوتے ہیں الحمد للہ آج 6 ذی قعدہ 1391 ھ کو مسجد اہل حدیث سورت اور مسجد اہل حدیث دریاؤ میں پارہ نمبر 15 کی تسوید کا کام شروع کررہاہوں اللہ پاک قلم کو لغزشوں سے بچائے اور فہم حدیث کے لیے دل ودماغ میں روشنی عطافرمائے۔ مسجد اہل حدیث دریاؤ میں فن حدیث و تفسیر سے بیشتر کتب کا بہترین ذخیرہ محفوظ ہے۔ اللہ پاک ان بزرگوں کو ثواب عظیم بخشے جنہوں نے اس پاکیزہ ذخیرہ کو یہاں جمع فرمایا ۔ موجودہ اکابر جماعت دریاؤ کو بھی اللہ پاک جزائے خیر دے جو اس ذخیرہ کی حفاظت کماحقہ فرماتے رہتے ہیں۔ لفظ انصار ناصر کی جمع ہے جس کے معنی مددگار کے ہیں، قبائل مدینہ اوس اور خزرج جب مسلمان ہوئے اور نصرت اسلام کے لیے آنحضرت ﷺ سے عہد کیا تو اللہ پاک نے اپنے رسول پاک ﷺکی زبان فیض ترجمان پر لفظ انصار سے ان کو موسوم فرمایا، حافظ صاحب فرماتے ہیں: ھو اسم اسلامی سمی بہ النبی ﷺالاوس والخزرج، وحلفاءھم کما فی حدیث انس والاوس ینسبون الی اوس بن حارثہ والخزرج ینسبون الی الخزرج بن حارثۃ وھما ابنا قیلۃ وھو اسم امھم وابوھم ھو حارثۃ بن عمر وبن عامر الذی یجمع الیہ انساب الازد ( فتح الباری ) یعنی انصاراسلامی نام ہے رسول اللہﷺ نے اوس اور خزرج اور ان کے حلیف قبائل کا یہ نام رکھا جیسا کہ حدیث انس ؓ میں مذکور ہے، اوس قبیلہ اپنے دادا اوس بن حارثہ کی طرف منسوب ہے اور خزرج ، خزرج بن حارثہ کی طرف جو دونوں بھائی ایک عورت قیلہ نامی کے بیٹے ہیں ان کے باپ کانام حارثہ بن عمرو بن عامر ہے جس پر قبیلہ ازد کی جملہ شاخوں کے نسب نامے جاکر مل جاتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے بعاث کی جنگ کو اپنے رسول ﷺ کے مفاد میں پہلے ہی مقرر کر رکھا تھا، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہ قبائل آپس میں پھوٹ کا شکار تھے اور ان کے کچھ سردار قتل ہو چکے تھے اور کچھ زخموں سے چور تھے۔ اللہ تعالٰی نے اس جنگ کو اپنے رسول ﷺ کے مفاد میں پہلے ہی مقرر کیا تھا تاکہ (آپ کے مدینہ تشریف لاتے ہی) یہ لوگ مسلمان ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
بعاث۔مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے جہاں اوس اور خزرج کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی تھی، قبیلہ اوس کے رئیس حضرت اسیدؓ کے والد خضیر تھے جبکہ خزرج کے سرادر عمر بن نعمان فیاض تھے۔ یہ دونوں اس جنگ میں مارے گئے۔ پہلے خزرج کو فتح ہوئی، پھر خضیر نے قبیلہ اوس کومضبوط کیا تو ان کا پلہ بھاری رہا۔ یہ لڑائی رسول اللہﷺ کی ہجرت سے پانچ سال پہلے ہو چکی تھی۔اس میں دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے۔ اسلام کا ظہور ہواتو رسول اللہﷺکی آمد کی برکت سے یہ لڑائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی گویا ان کا قتل ہو جانا اشاعت اسلام (اسلام پھیلنے) کا پیش خیمہ تھا۔ اگر یہ زندہ رہتے تو ان کا اقدام اسلام کے سخت خلاف ہوتا۔ ان سرداروں میں سے ایک عبد اللہ بن ابی تھا جس نے منافقت کا روپ دھارا۔ درج ذیل آیت کریمہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر فرمائی ۔ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ (آل عمران:103/3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: "اور جنہوں نے (مہاجروں کو اپنے ہاں) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی۔" (نیز ارشاد الہٰی: ) "اور جو لوگ مہاجرین سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے اور ایمان لا چکے تھے وہ (انصار) ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور جو چیز مہاجرین کو دی جائے، وہ اس سے تنگ دل نہیں ہوتے" کا بیان
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بعاث کی جنگ کو (جو اسلام سے پہلے اوس اور خزرج میں ہوئی تھی) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے مفاد میں پہلے ہی مقدم کررکھا تھا چنانچہ جب آپ مدینہ میں تشریف لائے تو یہ قبائل آپس کی پھوٹ کا شکار تھے اور ان کے سردار کچھ قتل کئے جاچکے تھے، کچھ زخمی تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو آپ سے پہلے اس لیے مقدم کیا تھا تاکہ وہ آپ کے تشریف لاتے ہی مسلمان ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
بعاث یا بغاث مدینہ سے دومیل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں انصار کے دوقبیلوں اوس اور خزرج میں بڑی سخت لڑائی ہوئی تھی، اوس کے رئیس حضیرتھے ، اسید کے والد اور خزرج کے رئیس عمرو بن نعمان بیاضی تھے، یہ دونوں اس میں مارے گئے تھے، پہلے خزرج کو فتح ہوئی تھی، پھر حضیر نے اوس والوں کو مضبوط کیا تو اوس کی فتح ہوئی یہ حادثہ آنحضرت ﷺکے واقعہ ہجرت کے چار پانچ سال پہلے ہوچکا تھا، آنحضرتﷺکی تشریف آوری پر یہ قبائل مسلمان ہوگئے اور اخوت اسلامی سے پہلے کے تمام واقعات کو بھول گئے آیت کریمہ ﴿فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا﴾(آل عمران:103) میں اسی طرح اشارہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The day of Bu'ath (i.e. Day of fighting between the two tribes of the Ansar, the Aus and Khazraj) was brought about by Allah for the good of His Apostle (ﷺ) so that when Allah's Apostle (ﷺ) reached (Medina), the tribes of Madinah had already divided and their chiefs had been killed and wounded. So Allah had brought about the battle for the good of H is Apostle (ﷺ) in order that they (i.e. the Ansar) might embrace Islam.