Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The virtues of ‘Abdullah bin Salam رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3813.
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺ سے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا: اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب میں مجھے کہا گیا کہ تم اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا مجھ سے نہیں چڑھا جاتا۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے پیچھے کی طرف سے میرے کپڑے اٹھا دیے۔ آخر میں اوپر چڑھ گیا۔ جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے وہ کنڈا پکڑ لیا۔ مجھ سے کہا گیا: اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ اسی دوران میں کہ کنڈا میرے ہاتھ میں تھا، میری آنکھ کھل گئی، چنانچہ میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے یوں تعبیر فرمائی: ’’وہ باغ تو دین اسلام ہے۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے۔ اور کنڈا ’’عروہ وثقی‘‘ ہے۔ اور تم اپنی موت تک اسلام پر قائم ہو گے۔‘‘ یہ بزرگ عبداللہ بن سلام ؓ تھے۔ ایک روایت میں لفظ (منصف) (خادم) کے بجائے (وصيف) کا لفظ ہے۔
تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جب خواب سے بیدار ہوئے تھے تو عروہ وثقیٰ کو تھامے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کنڈا پکڑنے کے بعد اور اسے چھوڑنے سے پہلے بیدار ہوگئے، یعنی کنڈا پکڑنے اور بیدارہونے میں کوئی فاصلہ واقع نہیں ہواتھا یا بیدا رہونے کےبعد مٹھی بھرے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی چیز پکڑے ہوئے ہیں۔ 2۔ اس عروہ وثقیٰ سے مراد ایمان ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اوراللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔‘‘ (البقرة:256/2) 3۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔‘‘واللہ اعلم۔ (فتح الباري:166/7)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو قینقاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی کنیت ابویوسف ہے۔اور ہیں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے ۔دور جاہلیت میں ان کا نام حصین تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری کے موقع پر علامات نبوت دیکھ کر مسلمان ہوئے۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا اور ان کے لیے جنت کی بشارت دی۔رجب 43ہجری بمطابق اکتوبر 663ء میں فوت ہوئے۔
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺ سے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا: اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب میں مجھے کہا گیا کہ تم اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا مجھ سے نہیں چڑھا جاتا۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے پیچھے کی طرف سے میرے کپڑے اٹھا دیے۔ آخر میں اوپر چڑھ گیا۔ جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے وہ کنڈا پکڑ لیا۔ مجھ سے کہا گیا: اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ اسی دوران میں کہ کنڈا میرے ہاتھ میں تھا، میری آنکھ کھل گئی، چنانچہ میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے یوں تعبیر فرمائی: ’’وہ باغ تو دین اسلام ہے۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے۔ اور کنڈا ’’عروہ وثقی‘‘ ہے۔ اور تم اپنی موت تک اسلام پر قائم ہو گے۔‘‘ یہ بزرگ عبداللہ بن سلام ؓ تھے۔ ایک روایت میں لفظ (منصف) (خادم) کے بجائے (وصيف) کا لفظ ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جب خواب سے بیدار ہوئے تھے تو عروہ وثقیٰ کو تھامے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کنڈا پکڑنے کے بعد اور اسے چھوڑنے سے پہلے بیدار ہوگئے، یعنی کنڈا پکڑنے اور بیدارہونے میں کوئی فاصلہ واقع نہیں ہواتھا یا بیدا رہونے کےبعد مٹھی بھرے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی چیز پکڑے ہوئے ہیں۔ 2۔ اس عروہ وثقیٰ سے مراد ایمان ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اوراللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔‘‘ (البقرة:256/2) 3۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔‘‘واللہ اعلم۔ (فتح الباري:166/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہاہم سے ازہرسمان نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے، ان سے محمد نے اور ان سے قیس بن عبادنے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہواتھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پرخشوع وخضوع کے آثار ظاہر تھے لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنتی لوگوں میں ہیں، پھر انہوںنے دو رکعت نماز مختصرطریقہ پرپڑھی اور باہر نکل گئے میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کیا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنت والوں میں سے ہیں، اس پر انہوں نے کہا خداکی قسم! کسی کے لیے ایسی بات زبان سے نکالنا مناسب نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو اور میں تمہیں بتاوں گا کہ ایسا کیوں ہے، نبی کریم ﷺ کے زمانے میں میں نے ایک خواب میں دیکھا اورآنحضرت ﷺ سے اسے بیان کیا میں نے خواب یہ دیکھاتھا کہ جیسے میں ایک باغ میں ہوں، پھر انہوں نے اس کی وسعت اور اس کے سبزہ زاروں کاذکر کیا، اس باغ کے درمیان میں ایک لوہے کا کھمباہے جس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اوپر کاآسمان پر اور اس کی چوٹی پر ایک گھنادرخت ہے، (العروة) مجھ سے کہا گیا کہ اس پرچڑھ جاؤ میں نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے اتنے میں ایک خادم آیا اور پیچھے سے میرے کپڑے اس نے اٹھائے تو میں چڑھ گیا اور جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تومیں نے اس گھنے درخت کو پکڑلیا، ابھی میں اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھا کہ میری نیند کھل گئی، یہ خواب جب میں نے انحضرت ﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو باغ تم نے دیکھا ہے، وہ تواسلام ہے اوراس میں ستون اسلام کاستون ہے اور عروہ (گھنادرخت) العروة الوثقی ہے اس لیے تم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہوگے، یہ بزرگ حضرت عبداللہ بن سلام تھے اورمجھ سے خلیفہ نے بیان کیا ان سے معاذ نے بیان کیا ان سے ابن عون نے بیان کیا ان سے محمدنے ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا عبداللہ بن سلام ؓ سے انہوں نے منصف (خادم) کے بجائے وصیف کا لفظ ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais bin Ubad (RA): While I was sitting in the Mosque of Medina, there entered a man (Abdullah bin Salam) with signs of solemnity over his face. The people said, "He is one of the people of Paradise." He prayed two light Rakat and then left. I followed him and said, "When you entered the Mosque, the people said, 'He is one of the people of Paradise.' " He said, "By Allah, one ought not say what he does not know; and I will tell you why. In the lifetime of the Prophet (ﷺ) I had a dream which I narrated to him. I saw as if I were in a garden." He then described its extension and greenery. He added: In its center there was an iron pillar whose lower end was fixed in the earth and the upper end was in the sky, and at its upper end there was a (ring-shaped) hand-hold. I was told to climb it. I said, "I can't." "Then a servant came to me and lifted my clothes from behind and I climbed till I reached the top (of the pillar). Then I got hold of the hand-hold, and I was told to hold it tightly, then I woke up and (the effect of) the hand-hold was in my hand. I narrated al I that to the Prophet (ﷺ) who said, 'The garden is Islam, and the hand-hold is the Most Truth-worthy Hand-Hold. So you will remain as a Muslim till you die." The narrator added: "The man was 'Abdullah bin Salam."