Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3831.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عاشوراء کے روز زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو جو چاہتا عاشوراء کا روزہ رکھتا، جو چاہتا نہ رکھتا۔
تشریح:
دور جاہلیت میں جنگل کا قانون ہونے کے باوجود کچھ اچھے کام بھی ہوتے تھے جنھیں اسلام نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی تحسین فرمائی ہے انھی میں سے ایک عاشوراء کے دن کا روزہ ہے عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں دور جاہلیت میں اسے بڑے احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں زبردست قحط پڑا جب وہ ختم ہوا تو انھیں کسی نے بتایا کہ تم شکر کے طور پر عاشوراء کا روزہ رکھو، چنانچہ انھوں نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کردیا جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا۔ اس کی فضیلت اس قدر ہے کہ اس کے اہتمام سے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے معمولی سی ترمیم کی ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نو تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے تاکہ مذہبی شعار میں اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔ (فتح الباري:188/7) واللہ اعلم۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عاشوراء کے روز زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو جو چاہتا عاشوراء کا روزہ رکھتا، جو چاہتا نہ رکھتا۔
حدیث حاشیہ:
دور جاہلیت میں جنگل کا قانون ہونے کے باوجود کچھ اچھے کام بھی ہوتے تھے جنھیں اسلام نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی تحسین فرمائی ہے انھی میں سے ایک عاشوراء کے دن کا روزہ ہے عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں دور جاہلیت میں اسے بڑے احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں زبردست قحط پڑا جب وہ ختم ہوا تو انھیں کسی نے بتایا کہ تم شکر کے طور پر عاشوراء کا روزہ رکھو، چنانچہ انھوں نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کردیا جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا۔ اس کی فضیلت اس قدر ہے کہ اس کے اہتمام سے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے معمولی سی ترمیم کی ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نو تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے تاکہ مذہبی شعار میں اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔ (فتح الباري:188/7) واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عاشورا کا روزہ قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے اور نبی کریم ﷺ نے بھی اسے باقی رکھا تھا، جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ ؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ ۲ھ میں فرض ہوا تواس کے بعد آ پ نے حکم دیا کہ جس کاجی چاہے عاشورا کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): 'Ashura' (i.e. the tenth of Muharram) was a day on which the tribe of Quraish used to fast in the pre-lslamic period of ignorance. The Prophet (ﷺ) also used to fast on this day. So when he migrated to Medina, he fasted on it and ordered (the Muslims) to fast on it. When the fasting of Ramadan was enjoined, it became optional for the people to fast or not to fast on the day of Ashura.