Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3832.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بہت بڑا گناہ ہے۔ اور وہ محرم کو صفر کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب اونٹ کی پشت کا زخم اچھا ہو جائے اور اس کا نشان جاتا رہے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ کرنا حلال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے چار (4) ذوالحجہ کو احرام باندھا اور نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرہ کے احرام میں بدل لیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون کون سی چیز ہمارے لیے حلال ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہر چیز حلال ہو گئی۔‘‘
تشریح:
1۔ حج کے احرام کے لیے مقرر ہ مہینے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے نو دن ہیں۔ ان کے علاوہ دنوں میں عمرے کا احرام تو باندھا جا سکتا ہے لیکن حج کا احرام نہیں باندھا جا سکتا۔ 2۔دور جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس رسم بد کو ختم کرنے کے لیے ان دنوں میں حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ 3۔اہل جاہلیت کا طریقہ تھا کہ دوران حج میں استعمال ہونے والے اونٹوں کے زخم اچھے ہو جائیں تو پھر عمرہ کرنا چاہیے اور ان زخموں کے نشانات ماہ صفر گزر جانے کے بعد مٹتے تھے اس سے پہلے وہ عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اس کے لیے مہینوں میں تقدیم و تاخیر بھی کرتے تھے اس ناروا زیادتی کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایت فرمائی عمرے سے فراغت کے بعد فرمایا :احرام کے باعث جو چیز یں تم پر حرام ہوئی تھی وہ سب حلال ہیں۔ مشرکین کی تردید کے لیے آپ نے ان دنوں عمرے کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔ 4۔بہر حال دور جاہلیت کے جو کام قابل اصلاح تھے ان کی اصلاح کرنے کے بعد انھیں برقرار رکھا گیا۔ انھیں یکسرختم نہیں کیا البتہ جو کام اللہ سے بغاوت پر مبنی تھے انھیں یکسر ختم کردیا گیا مثلاً :لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا اور سود لینا دینا وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بہت بڑا گناہ ہے۔ اور وہ محرم کو صفر کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب اونٹ کی پشت کا زخم اچھا ہو جائے اور اس کا نشان جاتا رہے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ کرنا حلال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے چار (4) ذوالحجہ کو احرام باندھا اور نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرہ کے احرام میں بدل لیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون کون سی چیز ہمارے لیے حلال ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہر چیز حلال ہو گئی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حج کے احرام کے لیے مقرر ہ مہینے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے نو دن ہیں۔ ان کے علاوہ دنوں میں عمرے کا احرام تو باندھا جا سکتا ہے لیکن حج کا احرام نہیں باندھا جا سکتا۔ 2۔دور جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس رسم بد کو ختم کرنے کے لیے ان دنوں میں حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ 3۔اہل جاہلیت کا طریقہ تھا کہ دوران حج میں استعمال ہونے والے اونٹوں کے زخم اچھے ہو جائیں تو پھر عمرہ کرنا چاہیے اور ان زخموں کے نشانات ماہ صفر گزر جانے کے بعد مٹتے تھے اس سے پہلے وہ عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اس کے لیے مہینوں میں تقدیم و تاخیر بھی کرتے تھے اس ناروا زیادتی کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایت فرمائی عمرے سے فراغت کے بعد فرمایا :احرام کے باعث جو چیز یں تم پر حرام ہوئی تھی وہ سب حلال ہیں۔ مشرکین کی تردید کے لیے آپ نے ان دنوں عمرے کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔ 4۔بہر حال دور جاہلیت کے جو کام قابل اصلاح تھے ان کی اصلاح کرنے کے بعد انھیں برقرار رکھا گیا۔ انھیں یکسرختم نہیں کیا البتہ جو کام اللہ سے بغاوت پر مبنی تھے انھیں یکسر ختم کردیا گیا مثلاً :لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا اور سود لینا دینا وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیا ن کیا، کہا ہم سے عبد اللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والدنے اور ان سے حضرت عباس ؓ نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کرتے تھے۔ وہ محرم کو صفر کہتے۔ ان کے ہاں یہ مثل تھی کہ اونٹ کی پیٹھ کا زخم جب اچھا ہونے لگے اور (حاجیوں کے) نشانات قدم مٹ چکیں تو اب عمرہ کرنے والوں کا عمرہ جائز ہوا۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو حج کا احرام باندھے ہوئے (مکہ) تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ کرڈالیں (طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں) صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! (اس عمرہ اور حج کے دوران میں) کیا چیز یں حلال ہوں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام چیزیں! جو احرام کی نہ ہونے کی حالت میں حلال تھیں وہ سب حلال ہوجائیں گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The people used to consider the performance of 'Umra in the months of Hajj an evil deed on the earth, and they used to call the month of Muharram as Safar and used to say, "When (the wounds over) the backs (of the camels) have healed and the foot-marks (of the camels) have vanished (after coming from Hajj), then 'Umra becomes legal for the one who wants to perform 'Umra." Allah's Apostle (ﷺ) and his companions reached Makkah assuming Ihram for Hajj on the fourth of Dhul-Hijja. The Prophet (ﷺ) ordered his companions to perform 'Umra (with that lhram instead of Hajj). They asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What kind of finishing of Ihram?" The Prophet (ﷺ) said, "Finish the Ihram completely.'