Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3834.
حضرت قیس بن ابوحازم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جسے زینب بنت مہاجر کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ بات نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دریافت کیا: اسے کیا ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ لوگوں نے کہا کہ یہ خاموش رہ کر حج کرتی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے کہا: بات کرو، چپ رہنا جائز نہیں بلکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے، تو وہ بول پڑی۔ پوچھنے لگی: آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں مہاجرین میں سے ہوں۔ اس نے کہا: کون سے مہاجرین سے ہو؟ آپ نے فرمایا: قریش میں سے۔ اس نے کہا: قریش کے کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا: تو بہت سوال کرتی ہے۔ میں ابوبکر ہوں۔ اس نے کہا: اس نیک امر پر جو اللہ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا کیا ہے ہم کتنا عرصہ باقی رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری بقا اس پر اس وقت تک ہے جب تک تمہارے امام درست رہیں گے۔ اس نے پوچھا: امام کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری قوم کے چودھری اور سردار نہیں ہیں جو لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس نے کہا: کیوں نہیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: بس یہی لوگوں کے امام ہیں۔
تشریح:
1۔ وہ عورت بڑی صاحب بصیرت اور عقلمند تھی۔ اسے پتہ تھا کہ وہ کثرت کلام کی عادی ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اس کے طرز عمل پر تبصرہ فرمایا تھا، اس نے نذر مانی کہ خاموشی سے حج کرے گی اور یہ التزام اس کے لیے بہتر ہے۔ چونکہ یہ عمل شریعت میں جائز نہ تھا کیونکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے کہ چپ کا روزہ رکھ کر حج کرتے تھے جیسا کہ کتب حدیث میں ابو اسرائیل کا واقعہ ہے جس نے نذرمانی تھی کہ وہ خاموش رہ کر حج کرے گا اور سواری سایہ دار چیز استعمال نہیں کرے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع فرما دیا۔ اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ نے بھی جاہلیت پر مبنی ایک امر کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ 2۔حدیث میں امر صالح سے مراد اسلام ہے اور آئمہ کی بقا سے مراد یہ ہے کہ ان کی استقامت سے حدود قائم ہوں لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر چیز مناسب مقام پر ہو بہر حال جب تک قوم کے سردار اور حکمران دین اسلام پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں گے تو دین اسلام باقی رہے گا بصورت دیگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جیسا کہ آج اسلامی دنیا کا حال ہے کہ ان میں دین حق بے کس و بے سہارا ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران فروغ اسلام میں دلچسپی نہیں رکھتے صرف ایک سعودی حکومت ہے جسے ان حالات میں اسلام کی نشرو اشاعت کا خیال ہے اور اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تادیر اسے قائم رکھے آمین۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت قیس بن ابوحازم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس گئے جسے زینب بنت مہاجر کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ بات نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دریافت کیا: اسے کیا ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ لوگوں نے کہا کہ یہ خاموش رہ کر حج کرتی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے کہا: بات کرو، چپ رہنا جائز نہیں بلکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے، تو وہ بول پڑی۔ پوچھنے لگی: آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں مہاجرین میں سے ہوں۔ اس نے کہا: کون سے مہاجرین سے ہو؟ آپ نے فرمایا: قریش میں سے۔ اس نے کہا: قریش کے کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا: تو بہت سوال کرتی ہے۔ میں ابوبکر ہوں۔ اس نے کہا: اس نیک امر پر جو اللہ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا کیا ہے ہم کتنا عرصہ باقی رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری بقا اس پر اس وقت تک ہے جب تک تمہارے امام درست رہیں گے۔ اس نے پوچھا: امام کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری قوم کے چودھری اور سردار نہیں ہیں جو لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس نے کہا: کیوں نہیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: بس یہی لوگوں کے امام ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ وہ عورت بڑی صاحب بصیرت اور عقلمند تھی۔ اسے پتہ تھا کہ وہ کثرت کلام کی عادی ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اس کے طرز عمل پر تبصرہ فرمایا تھا، اس نے نذر مانی کہ خاموشی سے حج کرے گی اور یہ التزام اس کے لیے بہتر ہے۔ چونکہ یہ عمل شریعت میں جائز نہ تھا کیونکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے کہ چپ کا روزہ رکھ کر حج کرتے تھے جیسا کہ کتب حدیث میں ابو اسرائیل کا واقعہ ہے جس نے نذرمانی تھی کہ وہ خاموش رہ کر حج کرے گا اور سواری سایہ دار چیز استعمال نہیں کرے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع فرما دیا۔ اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ نے بھی جاہلیت پر مبنی ایک امر کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ 2۔حدیث میں امر صالح سے مراد اسلام ہے اور آئمہ کی بقا سے مراد یہ ہے کہ ان کی استقامت سے حدود قائم ہوں لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر چیز مناسب مقام پر ہو بہر حال جب تک قوم کے سردار اور حکمران دین اسلام پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں گے تو دین اسلام باقی رہے گا بصورت دیگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جیسا کہ آج اسلامی دنیا کا حال ہے کہ ان میں دین حق بے کس و بے سہارا ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران فروغ اسلام میں دلچسپی نہیں رکھتے صرف ایک سعودی حکومت ہے جسے ان حالات میں اسلام کی نشرو اشاعت کا خیال ہے اور اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تادیر اسے قائم رکھے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے بیان نے، ان سے ابو بشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا، آپ ؓ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کر تیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کر نے کی منت مانی ہے۔ ابو بکر ؓ نے ان سے فرمایا اجی بات کرو اس طرح حج کر نا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ حضرت ابو بکر ؓ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابو بکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطافرمایا ہے اس پر ہم (مسلمان) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ ؓ نے فرمایا اس پر تمہار ا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہار ے امام حاکم سید ھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابو بکر ؓ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے اس عورت نے کہا ہم میں اور ہماری قوم میں جاہلیت کے زمانہ میں کچھ فساد ہوا تھا تومیں نے قسم کھا ئی تھی کہ اگر اللہ نے مجھ کو اس سے بچادیا تو میں جب تک حج نہ کرلوں گی کسی سے بات نہیں کروں گی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا اسلام ان باتوں کو مٹا دیتا ہے تم بات کرو۔ حافظ نے کہا حضرت ابو بکر ؓ کے اس قول سے یہ نکلا کہ ایسی غلط قسم کا توڑ دینا مستحب ہے۔ حدیث ابو اسرائیل بھی ایسی ہے جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی منت مانی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا اور اس منت کو توڑ وا دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais bin Abi Hazim (RA): Abu Bakr (RA) went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, "Why does she not speak." The people said, "She has intended to perform Hajj without speaking." He said to her, "Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, "Who are you?" He said, "A man from the Emigrants." She asked, "Which Emigrants?" He replied, "From Quraish." She asked, "From what branch of Quraish are you?" He said, "You ask too many questions; I am Abu Bakr." She said, "How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance?" He said, "You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations." She asked, "What are the Imams?" He said, "Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them?" She said, "Yes." He said, "So they (i.e. the Imams) are those whom I meant."