Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3835.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک حبشی عورت جو کسی عربی کی لونڈی تھی وہ مسلمان ہو گئی۔ مسجد میں اس کا چھوٹا سا جھونپڑا تھا۔ وہ ہمارے پاس آیا جایا کرتی تھی اور باتیں کیا کرتی تھی۔ جب وہ اپنی باتوں سے فارغ ہوتی تو یہ شعر ضرور پڑھتی: ’’کمر بند یار والا دن ہمارے رب کے عجائبات میں سے ہے۔۔۔ کہ اس نے مجھے شہر کفر سے نجات دی‘‘ جب کئی مرتبہ اس نے یہ شعر پڑھا تو حضرت عائشہ ؓ نے اس سے دریافت کیا کہ اس شعر کا پس منظر کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے مالک کی ایک لڑکی باہر نکلی جو سرخ چمڑے کا ایک ہار پہنے ہوئے تھی۔ وہ اس سے گر گیا تو ایک چیل اس پر جھپٹی اور وہ اسے گوشت سمجھ کر اٹھا لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے سخت سزا دینے لگے یہاں تک کہ انہوں نے میری شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ تاہم جب وہ میرے چاروں طرف جمع تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی اس دوران میں وہ چیل آئی اور ہمارے سروں کے اوپر اُڑنے لگی۔ پھر اس نے وہی ہار نیچے گرا دیا۔ لوگوں نے اسے اٹھایا تو میں نے ان سے کہا: یہ وہ ہار ہے جس کی تم نے مجھ پر تہمت لگائی تھی: حالانکہ میں بالکل بے گناہ تھی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں دور جاہلیت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے وہ مظالم دکھانا مقصود ہیں جو اہل جاہلیت اپنی زبانوں اور اپنے کاموں سے غریبوں پر ڈھایا کرتے تھے چنانچہ اس حدیث میں ایک حبشی لونڈی کی اپنی آپ بیتی اور دردناک داستان بیان ہوئی ہے کہ انھوں نے ایک سرخ چمڑے کے ہار کے لیے اسے متہم کیا پھر اسے برآمد کرنے کے لیے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی گئی۔ یہ ایسا فعل جاہلیت ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ 2۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے یہاں لانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس جاہلیت کا آئینہ اور نمونہ دکھایا جائے جس کی اصلاح دین اسلام کی ہے۔ (فتح الباري:191/7)
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک حبشی عورت جو کسی عربی کی لونڈی تھی وہ مسلمان ہو گئی۔ مسجد میں اس کا چھوٹا سا جھونپڑا تھا۔ وہ ہمارے پاس آیا جایا کرتی تھی اور باتیں کیا کرتی تھی۔ جب وہ اپنی باتوں سے فارغ ہوتی تو یہ شعر ضرور پڑھتی: ’’کمر بند یار والا دن ہمارے رب کے عجائبات میں سے ہے۔۔۔ کہ اس نے مجھے شہر کفر سے نجات دی‘‘ جب کئی مرتبہ اس نے یہ شعر پڑھا تو حضرت عائشہ ؓ نے اس سے دریافت کیا کہ اس شعر کا پس منظر کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے مالک کی ایک لڑکی باہر نکلی جو سرخ چمڑے کا ایک ہار پہنے ہوئے تھی۔ وہ اس سے گر گیا تو ایک چیل اس پر جھپٹی اور وہ اسے گوشت سمجھ کر اٹھا لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے سخت سزا دینے لگے یہاں تک کہ انہوں نے میری شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ تاہم جب وہ میرے چاروں طرف جمع تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی اس دوران میں وہ چیل آئی اور ہمارے سروں کے اوپر اُڑنے لگی۔ پھر اس نے وہی ہار نیچے گرا دیا۔ لوگوں نے اسے اٹھایا تو میں نے ان سے کہا: یہ وہ ہار ہے جس کی تم نے مجھ پر تہمت لگائی تھی: حالانکہ میں بالکل بے گناہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں دور جاہلیت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے وہ مظالم دکھانا مقصود ہیں جو اہل جاہلیت اپنی زبانوں اور اپنے کاموں سے غریبوں پر ڈھایا کرتے تھے چنانچہ اس حدیث میں ایک حبشی لونڈی کی اپنی آپ بیتی اور دردناک داستان بیان ہوئی ہے کہ انھوں نے ایک سرخ چمڑے کے ہار کے لیے اسے متہم کیا پھر اسے برآمد کرنے کے لیے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی گئی۔ یہ ایسا فعل جاہلیت ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ 2۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے یہاں لانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس جاہلیت کا آئینہ اور نمونہ دکھایا جائے جس کی اصلاح دین اسلام کی ہے۔ (فتح الباري:191/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک کالی عورت جو کسی عرب کی باندی تھی، اسلام لائی اور مسجد میں اس کے رہنے کے لیے ایک کوٹھری تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا وہ ہ رے یہاں آیا کرتی اور باتیں کیا کرتی تھی، لیکن جب باتوں سے فارغ ہو جاتی تو وہ یہ شعر پڑھتی ”اور ہار والا دن بھی ہمارے رب کے عجائب قدرت میں سے ہے، کہ اسی نے (بفضلہ) کفر کے شہر سے مجھے چھڑایا۔“ اس نے جب کئی مرتبہ یہ شعر پڑھا توعائشہ ؓ نے اس سے دریافت کیا کہ ہار والے دن کاقصہ کیا ہے؟ اس نے بیان کیا کہ میرے مالکوں کے گھر انے کی ایک لڑکی (جو نئی دولہن تھی) لال چمڑے کا ایک ہار باندھے ہوئے تھی۔ وہ باہر نکلی تو اتفاق سے وہ گر گیا۔ ایک چیل کی اس پر نظر پڑی اور وہ اسے گوشت سمجھ کر اٹھا لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر اس کی چوری کی تہمت لگائی اور مجھے سزائیں دینی شروع کیں۔ یہاں تک کہ میری شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ خیر وہ ابھی میرے چاروں طرف جمع ہی تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی کہ چیل آئی اور ہمارے سروں کے بالکل اوپر اڑنے لگی۔ پھر اس نے وہی ہار نیچے گرا دیا۔ لوگوں نے اسے اٹھا لیا تو میں نے ان سے کہا اسی کے لیے تم لوگ مجھے اتہام لگا رہے تھے حالانکہ میں بے گناہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں لفظ حفش ح کے کسرہ کے ساتھ ہے جو چھوٹے تنگ گھر پر بولا جاتا ہے: ووجه دخولها ھھنا من جهة ماکان علیه أهل الجاهلیة من الجفا في الفعل والقول(فتح) یعنی اس حدیث کو یہاں لانے سے زمانہ جاہلیت کے مظالم کا دکھلانا ہے، جو اہل جاہلیت اپنی زبانوں اور اپنے کاموں سے غریبوں پر ڈ ھایا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): A black lady slave of some of the 'Arabs embraced Islam and she had a hut in the mosque. She used to visit us and talk to us, and when she finished her talk, she used to say: "The day of the scarf was one of our Lord's wonders: Verily! He has delivered me from the land of Kufr." When she said the above verse many times, I (i.e. 'Aisha (RA)) asked her, "What was the day of the scarf?" She replied, "Once the daughter of some of my masters went out and she was wearing a leather scarf (round her neck) and the leather scarf fell from her and a kite descended and picked it up, mistaking it for a piece of meat. They (i.e. my masters) accused me of stealing it and they tortured me to such an extent that they even looked for it in my private parts. So, while they all were around me, and I was in my great distress, suddenly the kite came over our heads and threw the scarf, and they took it. I said to them 'This is what you accused me of stealing, though I was innocent."