Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3836.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’خبردار! تم میں سے جو قسم اٹھانا چاہے اسے اللہ کے سوا کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھانی چاہئے۔‘‘ قریش اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھایا کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ جس چیز کی قسم اٹھائی جائے قسم میں اس کی تعظیم مطلوب ہوتی ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس بنا پر غیر اللہ کی قسم اٹھا کر اس غیر کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ نہیں کرنا چاہیے۔ 2 دور جاہلیت میں لوگ اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے اور اس سے ان کی تعظیم بجا لانا مقصود تھا۔ شریعت نے اس سے منع کردیا کہ قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کی اٹھانی چاہیے۔ اس کے علاوہ نبی رسول، فرشتہ روح اور امانت وغیرہ کی قسم اٹھانا درست نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے غیر اللہ کی قسم کو اللہ کے ساتھ شرک اور کفر قراردیا ہے لہٰذا اس ے بچنا ضروری ہے۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’خبردار! تم میں سے جو قسم اٹھانا چاہے اسے اللہ کے سوا کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھانی چاہئے۔‘‘ قریش اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھایا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ جس چیز کی قسم اٹھائی جائے قسم میں اس کی تعظیم مطلوب ہوتی ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس بنا پر غیر اللہ کی قسم اٹھا کر اس غیر کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ نہیں کرنا چاہیے۔ 2 دور جاہلیت میں لوگ اپنے باپ دادا کی قسم اٹھاتے تھے اور اس سے ان کی تعظیم بجا لانا مقصود تھا۔ شریعت نے اس سے منع کردیا کہ قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کی اٹھانی چاہیے۔ اس کے علاوہ نبی رسول، فرشتہ روح اور امانت وغیرہ کی قسم اٹھانا درست نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے غیر اللہ کی قسم کو اللہ کے ساتھ شرک اور کفر قراردیا ہے لہٰذا اس ے بچنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عبدا للہ بن دینار نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں! اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہو تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم نہ کھائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If anybody has to take an oath, he should swear only by Allah." The people of Quraish used to swear by their fathers, but the Prophet (ﷺ) said, "Do not swear by your fathers. "