Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3837.
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت قاسم جنازے کے آگے آگے چلتے تھے اور اسے دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اور وہ حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے خبر دیتے تھے کہ اہل جاہلیت جب جنازے کو دیکھتے تو اس کے لیے کھڑے ہو جاتے اور دو مرتبہ کہا کرتے تھے: تو وہی ہے جو اپنے اہل کے پاس تھا۔
تشریح:
زمانہ جاہلیت میں لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے قائل نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد جب روح نکلتی ہے تو نیک آدمی کی روح کسی اچھے پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور برے آدمی کی روح کسی گندے اور برے پرندے کا بھیس بدل لیتی ہے مثلاً: الواورکوا وغیرہ اسے وہ صدی یا ہام سے تعبیر کرتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی تیرا وہی حال ہے جو زندگی میں تھا اگر اس وقت اچھا تھا تو اب بھی اچھا ہوگا اگر اس وقت برا تھا تواب بھی برا ہو گا۔ بہر حال اس حدیث میں دور جاہلیت کا ایک طریقہ بیان ہوا ہے جو مُردوں سے متعلق تھا۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت قاسم جنازے کے آگے آگے چلتے تھے اور اسے دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اور وہ حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے خبر دیتے تھے کہ اہل جاہلیت جب جنازے کو دیکھتے تو اس کے لیے کھڑے ہو جاتے اور دو مرتبہ کہا کرتے تھے: تو وہی ہے جو اپنے اہل کے پاس تھا۔
حدیث حاشیہ:
زمانہ جاہلیت میں لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے قائل نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد جب روح نکلتی ہے تو نیک آدمی کی روح کسی اچھے پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور برے آدمی کی روح کسی گندے اور برے پرندے کا بھیس بدل لیتی ہے مثلاً: الواورکوا وغیرہ اسے وہ صدی یا ہام سے تعبیر کرتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی تیرا وہی حال ہے جو زندگی میں تھا اگر اس وقت اچھا تھا تو اب بھی اچھا ہوگا اگر اس وقت برا تھا تواب بھی برا ہو گا۔ بہر حال اس حدیث میں دور جاہلیت کا ایک طریقہ بیان ہوا ہے جو مُردوں سے متعلق تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہامجھ سے عبدا للہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمر و بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے بیان کیا کہ ان کے والد قاسم بن محمد جنازہ کے آگے آگے چلاکر تے تھے اور جنازہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے وہ بیان کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازہ کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور اسے دیکھ کر دوبارکہتے تھے کہ، اے مرنے والے جس طرح اپنی زندگی میں تو اپنے گھروالوں کے ساتھ تھا اب ویسا ہی کسی پرندے کے بھیس میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
جاہلیت والے اگلے جنم کے قائل تھے وہ کہتے تھے آدمی کی روح مرتے ہی کسی پرند ے کے بھیس میں چلی جاتی ہے اگر اچھا آدمی تھا تو اچھے پرندے کی شکل لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور اگر آدمی برا تھا تو برے کی مثلا الو، کوا وغیر ہ۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تو اچھا شریف آدمی تھا اب بتلا کس جنم میں ہے۔ بعض نے ترجمہ یوں کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تھا لیکن دوبار تو ان میں نہیں رہ سکتا یعنی حشر ہونے والانہیں۔ جیسے مشرکوں کا اعتقاد تھاکہ ایک ہی زندگی ہے دنیا کی زندگی اوروہ آخرت کے قائل نہ تھے۔ قوله کنت في أھلك ما أنت مرتین أي یقولون ذلك مرتین وما موصلة وبعض الصلة محذوف والتقدیر أنت في أھلك الذي کنت فیه أي الذي أنت فیه إلاٰن کنت في الحیاة مثله لأنهم کانوا لایؤمنون بالبعث ولکن کا نوا یعتقدون الروح إذاخرجت تطیر طیرا فإن کان من أھل الخیر کان روحه من صالح الطیر وإلا بالعکس، خلاصہ مضمون وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Al-Qasim (RA): Al-Qasim used to walk in front of the funeral procession. He used not to get up for the funeral procession (in case it passed by him). And he narrated from 'Aisha (RA) that she said, "The people of the pre-lslamic period of ignorance used to stand up for the funeral procession. When they saw it they used to say twice: 'You were noble in your family. What are you now?"