Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3840.
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، وہ (اپنے) زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ استعمال کرتے تھے: ’’ہمیں چھلکتے ہوئے شراب کے جام پلاتے رہو۔‘‘
تشریح:
حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے باپ حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ سے دور جاہلیت میں یہ الفاظ سنے لیکن جاہلیت سے مراد قبل از بعثت نہیں کیونکہ ابن عباس ؓ بعثت کے دس سال بعد پیدا ہوئے ہیں لہٰذا اس مقام پر جاہلیت نسبیہ مراد ہے، یعنی میں نے یہ قول مسلمان ہونے کے بعد سنا، انھوں نے اپنے دور جاہلیت کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا: دور جاہلیت میں شراب پینے کا عام رواج تھا۔ جام انڈیلنے کی عادت تھی۔ اسلام نے اس پر آہستہ آہستہ پابندی عائد کی جیسا کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، وہ (اپنے) زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ استعمال کرتے تھے: ’’ہمیں چھلکتے ہوئے شراب کے جام پلاتے رہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے باپ حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ سے دور جاہلیت میں یہ الفاظ سنے لیکن جاہلیت سے مراد قبل از بعثت نہیں کیونکہ ابن عباس ؓ بعثت کے دس سال بعد پیدا ہوئے ہیں لہٰذا اس مقام پر جاہلیت نسبیہ مراد ہے، یعنی میں نے یہ قول مسلمان ہونے کے بعد سنا، انھوں نے اپنے دور جاہلیت کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا: دور جاہلیت میں شراب پینے کا عام رواج تھا۔ جام انڈیلنے کی عادت تھی۔ اسلام نے اس پر آہستہ آہستہ پابندی عائد کی جیسا کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ نے بیان کیا اور حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں (یہ لفظ استعمال کرتے تھے) "اسقنا کأسا دھاقا'' یعنی ہم کو بھر پور جام شراب پلاتے رہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbas (RA) said, "In the pre-lslamic period of ignorance I heard my father saying, "Provide us with Kasan Dihaqa."