Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3842.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ کا ایک غلام تھا جو انہیں خراج (محصول) لا کر دیا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا تو حضرت ابوبکر ؓ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ غلام نے ان سے کہا: آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: (بتائیں) یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے دور جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی، حالانکہ میں کہانت نہیں جانتا تھا بلکہ میں نے اس شخص کو دھوکا دیا تھا۔ اتفاق سے ایک دن وہ مجھے ملا تو اس نے کہانت کا بدل مجھے دیا ہے اور اس سے آپ نے کھایا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے (سنتے ہی) اپنا ہاتھ گلے میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال دیں۔
تشریح:
1۔ شرعی دلیل کے بغیر مستقبل کی خبریں دینا کہا نت ہے ہماری شریعت میں(حُلْوَانُ الْكَاهِنِ) یعنی کاہن کا نذرانہ حرام ہے، اس لیے حضرت ابو بکر ؓ نے قے کر کے اسے نکال دیا۔ آپ نے تقوی اور احتیاط کی بنا پر ایسا کیا بصورت دیگر آپ اس کا تاوان بھی دے سکتے تھے۔ ظہور نبوت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اس طرح کے کام بہت ہوتے تھے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام کی ملازمت سے ملنے والی پنشن بھی حرام ہے۔ اس سے انتہائی ضروری ہے۔ 3۔ واضح رہے کہ خراج اس رقم کو کہتے ہیں جو غلام کما کے روزانہ اپنے آقا کو ادا کرتا ہے اور یہ طے شدہ ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر ؓ کا ایک غلام تھا جو انہیں خراج (محصول) لا کر دیا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا تو حضرت ابوبکر ؓ نے اس میں سے کچھ کھایا۔ غلام نے ان سے کہا: آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: (بتائیں) یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے دور جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی، حالانکہ میں کہانت نہیں جانتا تھا بلکہ میں نے اس شخص کو دھوکا دیا تھا۔ اتفاق سے ایک دن وہ مجھے ملا تو اس نے کہانت کا بدل مجھے دیا ہے اور اس سے آپ نے کھایا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے (سنتے ہی) اپنا ہاتھ گلے میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال دیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شرعی دلیل کے بغیر مستقبل کی خبریں دینا کہا نت ہے ہماری شریعت میں(حُلْوَانُ الْكَاهِنِ) یعنی کاہن کا نذرانہ حرام ہے، اس لیے حضرت ابو بکر ؓ نے قے کر کے اسے نکال دیا۔ آپ نے تقوی اور احتیاط کی بنا پر ایسا کیا بصورت دیگر آپ اس کا تاوان بھی دے سکتے تھے۔ ظہور نبوت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اس طرح کے کام بہت ہوتے تھے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام کی ملازمت سے ملنے والی پنشن بھی حرام ہے۔ اس سے انتہائی ضروری ہے۔ 3۔ واضح رہے کہ خراج اس رقم کو کہتے ہیں جو غلام کما کے روزانہ اپنے آقا کو ادا کرتا ہے اور یہ طے شدہ ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر ؓ کا ایک غلام تھا جو روزانہ انہیں کچھ کمائی دیا کرتا تھا اور حضرت ابو بکر ؓ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا اورحضر ت ابو بکر ؓ نے بھی اس میں سے کھالیا۔ پھر غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے؟ یہ کیسی کمائی سے ہے؟ آپ نے دریافت فرمایا کیسی ہے؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شحص کے لیے کہا نت کی تھی حالانکہ مجھے کہانت نہیں آتی تھی، میں نے اسے صرف دھوکہ دیا تھا لیکن اتفاق سے وہ مجھے مل گیا اور اس نے اس کی اجرت میں مجھ کو یہ چیز دی تھی، آپ کھا بھی چکے ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال ڈالیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Abu Bakr (RA) had a slave who used to give him some of his earnings. Abu Bakr (RA) used to eat from it. One day he brought something and Abu Bakr (RA) ate from it. The slave said to him, "Do you know what this is?" Abu Bakr (RA) then enquired, "What is it?" The slave said, "Once, in the pre-Islamic period of ignorance I foretold somebody's future though I did not know this knowledge of foretelling but I, cheated him, and when he met me, he gave me something for that service, and that is what you have eaten from." Then Abu Bakr (RA) put his hand in his mouth and vomited whatever was present in his stomach.