Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The days of Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3844.
حضرت غیلان بن جریر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت انس ؓ کے پاس آیا کرتے تھے تو وہ ہمیں انصار کے واقعات سنایا کرتے تھے اور مجھے کہا کرتے تھے: تمہاری قوم نے فلاں، فلاں روز ایسا ایسا کام کیا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام سر انجام دیا۔
تشریح:
1۔ حضرت انس بن مالک ؓ ان سے انصار کے کار نامے بیان کرتے تھے۔ وہ واقعات زمانہ جاہلیت کے بھی ہوتے اور اسلامی کارناموں کا بھی ذکر ہوتا۔ 2۔امام بخاری ؒ کی بیان کردہ تمام روایات میں کسی نہ کسی پہلو سے زمانہ جاہلیت کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ حالات بیشتر معاشی، اقتصادی سیاسی، اخلاقی اور مذہبی کوائف سے متعلق ہیں جن میں برے اور اچھے ہر قسم کے حالات کا تذکرہ ہوا ہے اسلام نے عہد جاہلیت کو ختم کیا اور جو خوبیاں تھیں انھیں برقرار رکھا کیونکہ وہ خوبیاں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی ہدایت سے ماخوذ تھیں۔
اسلام سے پہلے کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا جس میں کوئی اخلاقی اور شرعی قانون نہ تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی تحدید وقت سے نہیں بلکہ قانون وضابطے کے اعتبار سے ہونی چاہیے یعنی طرز زندگی کا ہر وہ اقدام جاہلیت ہے جو اللہ سے بغاوت پر مبنی ہو۔ اگر اس کا تعلق اسلام سے پہلے وقت کے ساتھ ہے تو اسے جاہلیت قدیم کہتے ہیں۔قرآن کریم نے اس سلسلے میں چار مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے:(ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ)( آل عمران:3/154۔) (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ)( المائدہ5/50۔) )تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ )( الاحزاب33۔33۔))حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)( الفتح 48۔26۔)اگر جاہلیت کا تعلق اسلام کے بعد سے ہے تو اسے جاہلیت جدیدہ کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل روشن خیالی کی آڑ میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہے۔عہد جاہلیت اس زمانے کو بھی کہتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر زمانہ جاہلیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آپ کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔( فتح الباری:7/188۔)
حضرت غیلان بن جریر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت انس ؓ کے پاس آیا کرتے تھے تو وہ ہمیں انصار کے واقعات سنایا کرتے تھے اور مجھے کہا کرتے تھے: تمہاری قوم نے فلاں، فلاں روز ایسا ایسا کام کیا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام سر انجام دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت انس بن مالک ؓ ان سے انصار کے کار نامے بیان کرتے تھے۔ وہ واقعات زمانہ جاہلیت کے بھی ہوتے اور اسلامی کارناموں کا بھی ذکر ہوتا۔ 2۔امام بخاری ؒ کی بیان کردہ تمام روایات میں کسی نہ کسی پہلو سے زمانہ جاہلیت کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ حالات بیشتر معاشی، اقتصادی سیاسی، اخلاقی اور مذہبی کوائف سے متعلق ہیں جن میں برے اور اچھے ہر قسم کے حالات کا تذکرہ ہوا ہے اسلام نے عہد جاہلیت کو ختم کیا اور جو خوبیاں تھیں انھیں برقرار رکھا کیونکہ وہ خوبیاں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی ہدایت سے ماخوذ تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ غیلان بن جریر نے بیان کیا کہ ہم انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ ہم سے انصار کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے اور مجھ سے فرماتے کہ تمہاری قوم نے فلاں موقع پر یہ کا رنامہ انجام دیا، فلاں موقع پر یہ کارنامہ انجام دیا۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ مرویات میں کسی نہ کسی پہلو سے زمانہ جاہلیت کے حالات پر روشنی پڑتی ہے، حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ چونکہ عہد جاہلیت کا بیان فرما رہے ہیں، اسی لیے ان جملہ احادیث کو یہاں لائے۔ یہ حالات بیشتر معاشی، اقتصادی، سیاسی، اخلاقی مذہبی کوائف سے متعلق ہیں جن میں برے اور اچھے ہر قسم کے حالات کا تذکرہ ہواہے اسلام نے اہل جاہلیت کی برائیوں کو مٹایا اور جو خوبیاں تھیں ان کو لیا۔ اس لیے کہ وہ جملہ خوبیاں حضرت ابراہیم ؑ وحضرت اسماعیل ؑ کی ہدایات سے ماخوذ تھیں۔ اس لیے اسلام نے اس کو باقی رکھا، باقی امت اسلام کو ان کے لیے رغبت دلائی ایسا ہی ایک قسامہ کا معاملہ ہے جو عہد جاہلیت میں مروج تھا اور اسلام نے اسے باقی رکھا وہ آگے مذکو ر ہورہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ghailan bin Jarir (RA): We used to visit Anas bin Malik (RA) and he used to talk to us about the Ansar, and used to say to me: "Your people did so-and-so on such-and-such a day, and your people did so-and-so on such-and-such a day."