Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Al-Qasama in the Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3849.
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر دیکھا جس کے اردگرد بہت سے بندر جمع تھے۔ اس بندر نے زنا کیا تھا۔ انہوں (دوسرے بندروں) نے اسے سنگسار کیا تو میں نے بھی ان کے ساتھ اسے پتھر مارے۔
تشریح:
1۔ اس واقعے کی تفصیل اس طرح ہے: عمر و بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا میں نے دیکھا کہ ایک بندر، بندریا کولے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوگیا۔ اس دوران میں ایک چھوٹا بندرآیا۔ اس نے بندریا کو اشارہ کیا تو اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے نیچے سے نکالا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی پھر اس نے صحبت کی، میں انھیں دیکھ رہاتھا۔ فراغت کے بعد بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے نیچے کرنے لگی۔ اتنے میں وہ بیدار ہو گیا اور ایک چیخ ماری تو بندر جمع ہوگئے۔ یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چلا رہاتھا۔ آخر دوسرے بندر ادھر اُدھر گئے تو اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے جسے میں نے بھی پہچان لیا، پھر انھوں نے ان کے لیےایک گڑھا کھودا اور دونوں کو اس میں کھڑا کر کے سنگسار کر ڈالا۔ اس وقت میں نے رجم کا عمل انسانوں کے علاوہ جانوروں میں دیکھا۔ (فتح الباري:202/7) 2۔اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن میمون نے کیسے سمجھ لیا کہ اس بندر نے زنا کیا ہے کیونکہ جانوروں میں تو سلسلہ ازواج نہیں ہے اور نہ بندریا کسی کی بیوی ہی تھی، پھر انھیں رجم کرنے کا کیا مطلب؟ غیر مکلف کی طرف زنا کی نسبت کرنا پھر ان پر حدود رجم قائم کرنا عجیب بات ہے؟ لیکن کیا یہ بعید از عقل ہے کہ زنا کی برائی، گندگی اور خرابی بیان کرنا مقصود ہو۔ زنا اور بد کرداری اس قدر معیوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض حیوانات میں اس سے نفرت کا ادراک پیدا کیا اور انھوں نے اس عمل پر حدرجم جاری کی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سےملتا جلتا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک گھوڑے کو نسل کشی کے لیے اس گھوڑی کے پاس لایا گیا جس کے بطن سے وہ پیدا ہو اتھا لیکن گھوڑے نے اس سے جفتی نہ کی پھر لوگوں نے گھوڑی کو بند کمرے میں رکھا اور اس پر کپڑے ڈال کر گھوڑے کو اس پر داخل کیا تو اس نے جفتی کی۔ جب اس نے اپنی ماں کی بو سونگھی تو غیرت کے مارے اپنے آلہ تناسل کو چبا ڈالا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ جب گھوڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ادراک پیدا کردیا جو ذہانت و فطانت میں بندروں سے بہت پیچھے ہے تو بندروں میں اس ادراک کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جو بے شمار عادات میں انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ (فتح الباري:203/7) 3۔واضح رہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں خود عمروبن میمون مشہور تابعی اور ثقہ عابد تھے۔ سند کے اعتبار سے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا البتہ روایت کے لحاظ سے اسے محل نظر ٹھہرایا گیا ہے ہمارے نزدیک زنا کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عمرو بن میمون کو اپنی نشانی دکھائی جسے انھوں نے آگے بیان کیا ہے حیوانات کے اندر بعض اوقات اس طرح کا ادراک ممکن ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے 4حافظ ابن حجر نے اس احتمال کو بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بندر جن تھے جنھوں نے حیوانات کی شکل اختیار کر رکھی تھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں اور ان پر حدود کا نفاذ کیا جاتا ہے جنوں کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے پھر جنوں کا حیوانات کی شکل اختیار کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کر کے انصاری نوجوان کو مار دیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5839۔(2236)) اگر بندر کی شکل اختیار کیے جن زنا کا ارتکاب کریں تو ان پر حد کیوں نہ جاری کی جائے جب کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرناصحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ بہر حال نقل روایت اور عقل و روایت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ منکرین حدیث تو اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ واللہ أعلم المستعان۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کردہ مذکورہ عنوان بنیادی نہیں بلکہ اضافہ ہے کیونکہ بنیادی طور پر پیش کردہ حدیث زمانہ جاہلیت کے حالات سے متعلق ہے۔چونکہ اس میں ایک اہم اور اضافی فائدہ تھا جسے ایک الگ عنوان سے نمایاں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مذکورہ پیش کردہ حدیث کے بعد تمام احادیث قسامت کے عنوان سے متعلق نہیں بلکہ بنیادی عنوان "زمانہ جاہلیت کے حالات وواقعات"سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس وضاحت کے بعد قسامت یہ ہے کہ کسی محلے یا بستی میں کوئی مقتول ہے مکر کسی ذریعے سے بھی قاتل کا پتہ نہ چل سکے تو محلے کے پچاس آدمیوں کا انتخاب کر کے ان سے قسم لی جائے۔ کہ ان کے محلے والوں کا اس مقتول سے کوئی تعلق نہیں اسے قسامت کہتے ہیں دور جاہلیت کے اس قانون کواسلام نے برقراررکھا ہے۔
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر دیکھا جس کے اردگرد بہت سے بندر جمع تھے۔ اس بندر نے زنا کیا تھا۔ انہوں (دوسرے بندروں) نے اسے سنگسار کیا تو میں نے بھی ان کے ساتھ اسے پتھر مارے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس واقعے کی تفصیل اس طرح ہے: عمر و بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا میں نے دیکھا کہ ایک بندر، بندریا کولے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوگیا۔ اس دوران میں ایک چھوٹا بندرآیا۔ اس نے بندریا کو اشارہ کیا تو اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے نیچے سے نکالا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی پھر اس نے صحبت کی، میں انھیں دیکھ رہاتھا۔ فراغت کے بعد بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے نیچے کرنے لگی۔ اتنے میں وہ بیدار ہو گیا اور ایک چیخ ماری تو بندر جمع ہوگئے۔ یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چلا رہاتھا۔ آخر دوسرے بندر ادھر اُدھر گئے تو اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے جسے میں نے بھی پہچان لیا، پھر انھوں نے ان کے لیےایک گڑھا کھودا اور دونوں کو اس میں کھڑا کر کے سنگسار کر ڈالا۔ اس وقت میں نے رجم کا عمل انسانوں کے علاوہ جانوروں میں دیکھا۔ (فتح الباري:202/7) 2۔اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن میمون نے کیسے سمجھ لیا کہ اس بندر نے زنا کیا ہے کیونکہ جانوروں میں تو سلسلہ ازواج نہیں ہے اور نہ بندریا کسی کی بیوی ہی تھی، پھر انھیں رجم کرنے کا کیا مطلب؟ غیر مکلف کی طرف زنا کی نسبت کرنا پھر ان پر حدود رجم قائم کرنا عجیب بات ہے؟ لیکن کیا یہ بعید از عقل ہے کہ زنا کی برائی، گندگی اور خرابی بیان کرنا مقصود ہو۔ زنا اور بد کرداری اس قدر معیوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض حیوانات میں اس سے نفرت کا ادراک پیدا کیا اور انھوں نے اس عمل پر حدرجم جاری کی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سےملتا جلتا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک گھوڑے کو نسل کشی کے لیے اس گھوڑی کے پاس لایا گیا جس کے بطن سے وہ پیدا ہو اتھا لیکن گھوڑے نے اس سے جفتی نہ کی پھر لوگوں نے گھوڑی کو بند کمرے میں رکھا اور اس پر کپڑے ڈال کر گھوڑے کو اس پر داخل کیا تو اس نے جفتی کی۔ جب اس نے اپنی ماں کی بو سونگھی تو غیرت کے مارے اپنے آلہ تناسل کو چبا ڈالا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ جب گھوڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ادراک پیدا کردیا جو ذہانت و فطانت میں بندروں سے بہت پیچھے ہے تو بندروں میں اس ادراک کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جو بے شمار عادات میں انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ (فتح الباري:203/7) 3۔واضح رہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں خود عمروبن میمون مشہور تابعی اور ثقہ عابد تھے۔ سند کے اعتبار سے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا البتہ روایت کے لحاظ سے اسے محل نظر ٹھہرایا گیا ہے ہمارے نزدیک زنا کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عمرو بن میمون کو اپنی نشانی دکھائی جسے انھوں نے آگے بیان کیا ہے حیوانات کے اندر بعض اوقات اس طرح کا ادراک ممکن ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے 4حافظ ابن حجر نے اس احتمال کو بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بندر جن تھے جنھوں نے حیوانات کی شکل اختیار کر رکھی تھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں اور ان پر حدود کا نفاذ کیا جاتا ہے جنوں کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے پھر جنوں کا حیوانات کی شکل اختیار کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کر کے انصاری نوجوان کو مار دیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5839۔(2236)) اگر بندر کی شکل اختیار کیے جن زنا کا ارتکاب کریں تو ان پر حد کیوں نہ جاری کی جائے جب کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرناصحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ بہر حال نقل روایت اور عقل و روایت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ منکرین حدیث تو اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ واللہ أعلم المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر یا دیکھی اس کے چاروں طرف بہت سے بندر جمع ہوگئے تھے، اس بندریا نے زنا کرایا تھا اس لیے سبھوں نے مل کر اسے رجم کیا اور ان کے ساتھ میں بھی پتھر مارنے میں شریک ہوا۔
حدیث حاشیہ:
پوری روایت اسماعیل نے یوں نکالی عمرو بن میمون کہتے ہیں میں یمن میں تھا اپنے لوگوں کی بکریوں میں ایک اونچی جگہ پر میں نے دیکھا ایک بندر بندریا کو لے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سرکے نیچے رکھ کر سوگیا اتنے میں ایک چھوٹا بندر آیا اور بندریا کو اشارہ کیا اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی اس نے اس سے صحبت کی میں دیکھ رہا تھا پھر بندریا لوٹی اور آہستہ سے پھر اپنا ہاتھ پہلے بندر کے سر کے نیچے ڈالنے لگی لیکن وہ جاگ اٹھا اور ایک چیخ ماری تو سب بندر جمع ہوگئے۔ یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چیختا جاتا تھا۔ آخر دوسرے بندر ادھر ادھر گئے اور اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے۔ میں اسے پہچانتا تھا پھر انہوں نے ان کے لئے گڑھا کھودا اور دونوں کو سنگسار کر ڈالا تو میں نے یہ رجم کا عمل جانوروں میں بھی دیکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Maimun (RA): During the pre-lslamic period of ignorance I saw a she-monkey surrounded by a number of monkeys. They were all stoning it, because it had committed illegal sexual intercourse. I too, stoned it along with them.