باب: نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامناکیا ان کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: (The troubles which) the Mushrikun caused)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3855.
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزی نے فرمایا کہ تم حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں آیات میں مطابقت کے متعلق سوال کرو: ’’اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘ دوسری آیت: ’’جس نے کسی مسلمان کو دانستہ قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: جب سورہ فرقان کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم نے ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے حرم قرار دیا تھا۔ ہم تو اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطلہ کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں، یعنی یہ آیت مشرکین مکہ کے لیے ہے۔ اور جو آیت سورہ نساء میں ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو اسلام اور اس کے حکم کو جاننے پہچاننے کے بعد کسی کو دانستہ قتل کرتا ہے تو اس کی سزا ابدی جہنم ہے۔ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کا موقف جب امام مجاہد کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں۔
تشریح:
1۔حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا کہ ہم نے ایسے لوگوں کوقتل کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا تھا، یعنی انھوں نے خود اس بات کااعتراف کیا کہ ہم نے مسلمانوں کواس قدر اذیتیں دیں اور تکلیفوں سے دوچار کیا کہ انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 2۔ حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت اس طرح ہے کہ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کے بعداگر کوئی توبہ کرلے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا، (الفرقان 70:25) جبکہ سورہ نساء کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔(النساء:93:4) بظاہر ان دو آیات میں تعارض ہے حضرت ابن عباس ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت کفار کے متعلق ہے اوردوسری آیت مسلمانوں سے متعلق ہے، لہذا شان نزول کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعارض نہ رہا۔ لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے جسے جمور امت نےقبول نہیں کیا اور نہ ان کے شاگرد رشیدامام بخاری ؒ ہی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ سورہ نساء کا حکم وعید کے طور پر ہے تاکہ لوگ قتل کرنے سے باز رہیں، البتہ قاتل کی توبہ بھی دوسرے گناہوں کی طرح مقبول ہے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
اس سلسلے میں بہت سی احادیث پہلے بھی گزر چکی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بعثت کے بعد جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو مشرکین کے ہاتھوں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو لوہے کا لباس پہنا کر دھوپ میں کھڑا کردیا جاتا اور انھیں خوب مارا پیٹا جاتا لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا بھر کمزوری اور لغزش نہ آتی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ایمان میں اضافہ ہوتا۔( فتح الباری:7/209۔)
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزی نے فرمایا کہ تم حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں آیات میں مطابقت کے متعلق سوال کرو: ’’اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘ دوسری آیت: ’’جس نے کسی مسلمان کو دانستہ قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: جب سورہ فرقان کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم نے ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے حرم قرار دیا تھا۔ ہم تو اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطلہ کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں، یعنی یہ آیت مشرکین مکہ کے لیے ہے۔ اور جو آیت سورہ نساء میں ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو اسلام اور اس کے حکم کو جاننے پہچاننے کے بعد کسی کو دانستہ قتل کرتا ہے تو اس کی سزا ابدی جہنم ہے۔ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کا موقف جب امام مجاہد کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا کہ ہم نے ایسے لوگوں کوقتل کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا تھا، یعنی انھوں نے خود اس بات کااعتراف کیا کہ ہم نے مسلمانوں کواس قدر اذیتیں دیں اور تکلیفوں سے دوچار کیا کہ انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 2۔ حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت اس طرح ہے کہ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کے بعداگر کوئی توبہ کرلے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا، (الفرقان 70:25) جبکہ سورہ نساء کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔(النساء:93:4) بظاہر ان دو آیات میں تعارض ہے حضرت ابن عباس ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت کفار کے متعلق ہے اوردوسری آیت مسلمانوں سے متعلق ہے، لہذا شان نزول کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعارض نہ رہا۔ لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے جسے جمور امت نےقبول نہیں کیا اور نہ ان کے شاگرد رشیدامام بخاری ؒ ہی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ سورہ نساء کا حکم وعید کے طور پر ہے تاکہ لوگ قتل کرنے سے باز رہیں، البتہ قاتل کی توبہ بھی دوسرے گناہوں کی طرح مقبول ہے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، کہا مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا یا (منصور نے) اس طرح بیان کیا کہ مجھ سے حکم نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن ابزیٰ ؓ نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں آیتو ں کے متعلق پوچھو کہ ان میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے (ایک آیت ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ اور دوسری آیت ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا﴾ ہے ابن عباس ؓ سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ جب سورۃ الفرقا ن کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا ہم نے تو ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا ہم اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی ﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ﴾(وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آ ئيں) تو یہ آیت ان کے حق میں نہیں ہے لیکن سورۃ النساء کی آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو اسلام اور شرائع اسلام کے احکام جان کر بھی کسی کو قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے، میں نے عبد اللہ بن عباس ؓ کے اس ارشاد کا ذکر مجاہد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کرلیں۔
حدیث حاشیہ:
سورۃ فرقان کی آیت سے یہ نکلتا ہے کہ جو کوئی خون کرے لیکن پھر توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا اور سورۃ نساء کی آیت میں یہ ہے کہ جو کوئی عمدا کسی مسلمان کو قتل کرے تو اس کو ضرور سزا ملے گی ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اللہ کا غضب اور غصہ اس پر نازل ہوگا۔ اس صورت میں دونوں آیتوں کے مضمون میں تخالف ہوا تو عبد الرحمن بن ابزیٰ ؓ نے یہی امر حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے معلوم کرایا ہے جو یہاں مذکور ہے، حضرت عبد اللہ بن عبا س ؓ کا مطلب یہ تھا کہ سورۃ فرقان کی آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کفر کی حا لت میں ناحق خون کریں پھر توبہ کریں اور مسلمان ہوجائیں تو اسلام کی وجہ سے کفر کے ناحق خون کا ان سے مواخذہ نہ ہوگا اور سورۃ النساء کی آیت اس شخص کے حق میں ہے جو مسلمان ہو کر دوسرے مسلمان کو عمدا ناحق مار ڈالے ایسے شخص کی سزا دوزخ ہے اس کی تو بہ قبول نہ ہوگی تو دونوں آیتوں میں کچھ تخالف نہ ہوا اور حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ مشرکوں نے مسلمانوں کوناحق مارا تھا، ان کو ستایا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): 'AbdurRahman bin Abza said, "Ask Ibn 'Abbas (RA) about these two Qur'anic Verses: 'Nor kill such life as Allah has made sacred, Except for just cause.' (25.168) "And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell. (4.93) So I asked Ibn 'Abbas (RA) who said, "When the Verse that is in Sura-al-Furqan was revealed, the pagans of Makkah said, 'But we have slain such life as Allah has made sacred, and we have invoked other gods along with Allah, and we have also committed fornication.' So Allah revealed:-- 'Except those who repent, believe, and do good-- (25.70) So this Verse was concerned with those people. As for the Verse in Surat-an-Nisa (4-93), it means that if a man, after understanding Islam and its laws and obligations, murders somebody, then his punishment is to dwell in the (Hell) Fire forever." Then I mentioned this to Mujahid who said, "Except the one who regrets (one's crime) . "