Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration to Ethiopia)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ (خواب میں) دکھائی گئی ہے، وہاں کھجوروں کے باغ بہت ہیں وہ جگہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ جنہوں نے ہجرت کر لی تھی وہ مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے بلکہ جو مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے تھے وہ بھی مدینہ واپس چلے آئے۔ اس بارے میں ابوموسیٰ اور اسماء بنت عمیس کی روایات نبی کریمﷺسے مروی ہیں۔جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیا اور مسلمانوں میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی تو آنحضرتﷺمسلمانوں کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ تم اسلام کا غلبہ ہونے تک وہاں رہو یہ ہجرت دوبارہ ہوئی پہلے حضرت عثمانؓ نے اپنی بیوی حضرت رقیہؓ کو لے کر ہجرت کی۔(ان تینوں حدیثوں کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے حضرت عائشہکی حدیث کو باب الھجرت الی المدینہ میں اور ابو موسیٰ کی حدیث کو اسی باب میں اور اسماءؓ کی حدیث کو غزوۂ حنین میں۔
3872.
3902.
حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے، ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدلرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث ؓ نے کہا کہ تمہیں اپنے ماموں حضرت عثمان ؓ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ کے متعلق گفتگو کرنے سے کون منع کرتا ہے؟ لوگ اس بارے میں بکثرت چہ مگوئیاں کر رہے ہیں۔ عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ جب عثمان ؓ نماز کے لیے باہر نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے اور کوئی خیرخواہی کی بات کرنی ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے ان سے کہا: بھلے آدمی! میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس آ گیا۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو مسور اور ابن عبد یغوث ؓ کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے وہ گفتگو کی جو عثمان ؓ سے میں نے کی اور جو انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے کہا کہ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ اس دوران میں جب میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس حضرت عثمان ؓ کا قاصد آ گیا۔ ان دونوں نے مجھے کہا کہ تمہیں اللہ تعالٰی نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے فرمایا: وہ کون سی خیرخواہی تھی جس کا ذکر آپ نے ابھی کیا تھا؟ میں نے تشہد پڑھا اور ان سے عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا، آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ پر ای ن لائے، پہلی دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر آپ کی سیرت اور طریقے کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگ بہت باتیں کرتے ہیں، لہذا آپ پر ضروری ہے کہ اس پر حد قائم کریں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے علم میں سے میرے پاس اتنا ضروری علم پہنچ چکا ہے جس قدر ایک کنواری لڑکی کو اس کے پردے میں پہنچتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: بےشک اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا۔ ان پر اپنی کتاب نازل کی۔ اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور اس حق پر ایمان لایا جو رسول اللہ ﷺ کو دے کر بھیجا گیا تھا اور پہلی دو ہجرتیں کیں جیسا کہ تو نے کہا ہے۔ بلاشبہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا اور آپ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم! نہ تو میں نے آپ کی نافرمانی کی اور نہ آپ سے کوئی دھوکا فریب ہی کیا حتی کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو وفات دی۔ پھر اللہ تعالٰی نے ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی ان کی نافرمانی نہ کی اور نہ انہیں کوئی دھوکا فریب ہی دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو منتخب کر لیا گیا تو اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی نافرمانی نہ کی اور نہ ان سے دھوکا فراڈ ہی کیا۔ پھر مجھے خلیفہ بنایا گیا تو کیا میرا تم پر اتنا بھی حق نہیں جتنا ان کا مجھ پر تھا؟ عبیداللہ نے کہا: کیوں نہیں، پھر انہوں نے فرمایا: ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں حق کے ساتھ اس کی گرفت کریں گے۔ پھر آپ نے ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے مارنے کا حکم دیا اور حضرت علی ؓ سے کہا کہ وہ اسے کوڑے لگائیں۔ حضرت علی ؓ ہی کوڑے مارا کرتے تھے۔ اس حدیث کو یونس اور زہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے بیان کیا ہے۔ اس روایت میں حضرت عثمان ؓ کا قول بایں الفاظ بیان ہوا ہے: کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا؟! ابو عبداللہ (امام بخاری) نے فرمایا: ﴿بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ کا مطلب ہے کہ جس شدت اور تنگی میں ڈال کر تمہیں آزمایا گیا۔ اور (ابوعبیدہ نے) ایک جگہ مقام پر کہا کہ بلاء کے معنی ابتلاء اور تمحیص کے ہیں، یعنی جو اس کے پاس تھا وہ میں نے نکالا۔ يبلو کے معنی وہ آزماتا ہے۔ اور ﴿مُبْتَلِيكُم﴾ کے معنی ہیں وہ تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ اور جہاں تک بلائے عظیم کا تعلق ہے تو اس میں بلاء سے مراد نعمتیں ہیں۔ جب یہ نعمت کے معنی میں ہو تو ابليته سے ہو گا۔ اور امتحان کے معنی میں اس صورت میں ہو گا جب ابتليته سے ہو گا، یعنی اگر آپ کہنا چاہیں کہ میں نے اس پر انعام کیا تو آپ کہیں گے ابتليته اور اگر کہنا چاہیں کہ میں نے اس کا امتحان لیا تو کہیں گے۔ ابتليته۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ہجرت حبشہ کو ثابت کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حبشے کی طرف پہلی ہجرت میں شمولیت کی اور ان کے ہمراہ ان کی بیوی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔رسول اللہ ﷺ کو ان کی خبر میں دیر ہوئی تو آپ بہت پریشان ہوئے۔ آخر کار ایک عورت حبشے سے آئی، اس نے بتایا کہ میں نے ان دونوں کو وہاں دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان کا ساتھی ہے۔‘‘ حضرت لوط ؑ کے بعد حضرت عثمان ؓ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ہجرت کی ہے۔ 2۔امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کرنے میں یہی نکتہ پیش نظر رکھا ہے، لیکن حبشے کی دوسری ہجرت میں حضرت عثمان ؓ شامل نہیں ہوئے، اس لیے حدیث میں پہلی دوہجرتوں سے مراد حبشہ اور مدینہ طیبہ کی ہجرت ہے۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم پہلے ذکر کرآئے ہیں اور کچھ کتاب الحدود میں ذکر کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
جب مشرکین نے مکہ کے مسلمانوں کو تکلیفیں دینا شروع کیں۔ تاکہ یہ دین اسلام چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حبشے کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ تم غلبہ اسلام ہونے تک وہاں رہو۔یہ ہجرت دودفعہ عمل میں آئی:پہلی ہجرت میں بارہ مرد اور چارعورتیں تھیں۔وہ مکہ مکرمہ سے پیدل سمندر کی طرف گئے،وہاں نصف دینارکرائے پر کشتی لی اور حبشہ پہنچ گئے،پھر جب انھیں خبر ملی کہ سورہ نجم کی تلاوت کے وقت مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سجدہ کیا ہے تو وہ واپس لوٹ آئے۔جب مشرکین کے مظالم کا نشانہ بنے تو انھوں نے دوبارہ حبشے کی طرف ہجرت کی۔اس وقت ان کی تعداد تراسی(83) مرد اور اٹھارہ(18) خواتین تھیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت تین احادیث ذکر کی ہیں اور انھیں خود ہی مختلف مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے ،چنانچہ حدیث عائشہ،کتاب المناقب ،حدیث 3905،حدیث ابوموسیٰ اسی باب کے آخر میں ،حدیث:3876۔اور حدیث اسماء کتاب المغازی ،حدیث:4230 میں ہے۔
´اور عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ (خواب میں) دکھائی گئی ہے، وہاں کھجوروں کے باغ بہت ہیں وہ جگہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ جنہوں نے ہجرت کر لی تھی وہ مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے بلکہ جو مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے تھے وہ بھی مدینہ واپس چلے آئے۔ اس بارے میں ابوموسیٰ اور اسماء بنت عمیس کی روایات نبی کریمﷺسے مروی ہیں۔جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیا اور مسلمانوں میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی تو آنحضرتﷺمسلمانوں کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور حکم دیا کہ تم اسلام کا غلبہ ہونے تک وہاں رہو یہ ہجرت دوبارہ ہوئی پہلے حضرت عثمانؓ نے اپنی بیوی حضرت رقیہؓ کو لے کر ہجرت کی۔(ان تینوں حدیثوں کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے حضرت عائشہکی حدیث کو باب الھجرت الی المدینہ میں اور ابو موسیٰ کی حدیث کو اسی باب میں اور اسماءؓ کی حدیث کو غزوۂ حنین میں۔
حدیث ترجمہ:
3902.
حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے، ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدلرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث ؓ نے کہا کہ تمہیں اپنے ماموں حضرت عثمان ؓ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ کے متعلق گفتگو کرنے سے کون منع کرتا ہے؟ لوگ اس بارے میں بکثرت چہ مگوئیاں کر رہے ہیں۔ عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ جب عثمان ؓ نماز کے لیے باہر نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے اور کوئی خیرخواہی کی بات کرنی ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے ان سے کہا: بھلے آدمی! میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس آ گیا۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو مسور اور ابن عبد یغوث ؓ کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے وہ گفتگو کی جو عثمان ؓ سے میں نے کی اور جو انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے کہا کہ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ اس دوران میں جب میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس حضرت عثمان ؓ کا قاصد آ گیا۔ ان دونوں نے مجھے کہا کہ تمہیں اللہ تعالٰی نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے فرمایا: وہ کون سی خیرخواہی تھی جس کا ذکر آپ نے ابھی کیا تھا؟ میں نے تشہد پڑھا اور ان سے عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا، آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ پر ای ن لائے، پہلی دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر آپ کی سیرت اور طریقے کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگ بہت باتیں کرتے ہیں، لہذا آپ پر ضروری ہے کہ اس پر حد قائم کریں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے علم میں سے میرے پاس اتنا ضروری علم پہنچ چکا ہے جس قدر ایک کنواری لڑکی کو اس کے پردے میں پہنچتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: بےشک اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا۔ ان پر اپنی کتاب نازل کی۔ اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور اس حق پر ایمان لایا جو رسول اللہ ﷺ کو دے کر بھیجا گیا تھا اور پہلی دو ہجرتیں کیں جیسا کہ تو نے کہا ہے۔ بلاشبہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا اور آپ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم! نہ تو میں نے آپ کی نافرمانی کی اور نہ آپ سے کوئی دھوکا فریب ہی کیا حتی کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو وفات دی۔ پھر اللہ تعالٰی نے ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی ان کی نافرمانی نہ کی اور نہ انہیں کوئی دھوکا فریب ہی دیا۔ پھر حضرت عمر ؓ کو منتخب کر لیا گیا تو اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی نافرمانی نہ کی اور نہ ان سے دھوکا فراڈ ہی کیا۔ پھر مجھے خلیفہ بنایا گیا تو کیا میرا تم پر اتنا بھی حق نہیں جتنا ان کا مجھ پر تھا؟ عبیداللہ نے کہا: کیوں نہیں، پھر انہوں نے فرمایا: ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں حق کے ساتھ اس کی گرفت کریں گے۔ پھر آپ نے ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے مارنے کا حکم دیا اور حضرت علی ؓ سے کہا کہ وہ اسے کوڑے لگائیں۔ حضرت علی ؓ ہی کوڑے مارا کرتے تھے۔ اس حدیث کو یونس اور زہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے بیان کیا ہے۔ اس روایت میں حضرت عثمان ؓ کا قول بایں الفاظ بیان ہوا ہے: کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا؟! ابو عبداللہ (امام بخاری) نے فرمایا: ﴿بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ کا مطلب ہے کہ جس شدت اور تنگی میں ڈال کر تمہیں آزمایا گیا۔ اور (ابوعبیدہ نے) ایک جگہ مقام پر کہا کہ بلاء کے معنی ابتلاء اور تمحیص کے ہیں، یعنی جو اس کے پاس تھا وہ میں نے نکالا۔ يبلو کے معنی وہ آزماتا ہے۔ اور ﴿مُبْتَلِيكُم﴾ کے معنی ہیں وہ تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ اور جہاں تک بلائے عظیم کا تعلق ہے تو اس میں بلاء سے مراد نعمتیں ہیں۔ جب یہ نعمت کے معنی میں ہو تو ابليته سے ہو گا۔ اور امتحان کے معنی میں اس صورت میں ہو گا جب ابتليته سے ہو گا، یعنی اگر آپ کہنا چاہیں کہ میں نے اس پر انعام کیا تو آپ کہیں گے ابتليته اور اگر کہنا چاہیں کہ میں نے اس کا امتحان لیا تو کہیں گے۔ ابتليته۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ہجرت حبشہ کو ثابت کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حبشے کی طرف پہلی ہجرت میں شمولیت کی اور ان کے ہمراہ ان کی بیوی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔رسول اللہ ﷺ کو ان کی خبر میں دیر ہوئی تو آپ بہت پریشان ہوئے۔ آخر کار ایک عورت حبشے سے آئی، اس نے بتایا کہ میں نے ان دونوں کو وہاں دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان کا ساتھی ہے۔‘‘ حضرت لوط ؑ کے بعد حضرت عثمان ؓ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ہجرت کی ہے۔ 2۔امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کرنے میں یہی نکتہ پیش نظر رکھا ہے، لیکن حبشے کی دوسری ہجرت میں حضرت عثمان ؓ شامل نہیں ہوئے، اس لیے حدیث میں پہلی دوہجرتوں سے مراد حبشہ اور مدینہ طیبہ کی ہجرت ہے۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم پہلے ذکر کرآئے ہیں اور کچھ کتاب الحدود میں ذکر کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: "مجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ وہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے۔" چنانچہ جن لوگوں نے ہجرت کرنا تھی وہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے بلکہ جو مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے وہ بھی مدینہ طیبہ واپس چلے آئے۔ اس کے متعلق حضرت ابو موسٰی اشعری اور حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ ہم سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، انہیں عبید اللہ بن عدی بن خیارنے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبد الر حمن بن اسود بن عبد یغوث نے کہ ان دونوں نے عبید اللہ بن عدی بن خیار سے کہا تم اپنے ماموں (امیر المومنین) عثمان ؓ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے باب میں گفتگو کیوں نہیں کرتے، (ہوا یہ تھا کہ لوگوں نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا جو حضرت عثمان نے ولید کے ساتھ کیا تھا)، عبید اللہ نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمان ؓ نماز پڑھنے نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ کو ایک خیر خواہانہ مشورہ دینا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بھلے آدمی! تم سے تو میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس چلا آیا۔ نماز سے فا رغ ہونے کے بعد میں مسور بن مخرمہ اور ابن عبد یغوث کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان ؓ سے جو کچھ میںنے کہا تھا اور انہوں نے اس کا جواب مجھے جودیا تھا، سب میں نے بیان کر دیا۔ ان لوگوں نے کہا تم نے اپنا حق اداکردیا۔ ابھی میں اس مجلس میں بیٹھا تھاکہ عثمان ؓ کا آدمی میرے پاس (بلانے کے لیے) آیا۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا تمہیں اللہ تعالیٰ نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے دریافت کیا تم ابھی جس خیر خواہی کا ذکر کررہے تھے وہ کیا تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے کہا اللہ گواہ ہے پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی، آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت پر لبیك کہا تھا۔ آپ حضور ﷺ پر ایمان لائے دوہجرتیں کیں (ایک حبشہ کو اور دوسری مدینہ کو) آپ رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہیں اور آنحضرت ﷺ کے طریقوں کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگوں میں اب بہت چرچا ہونے لگا ہے۔ اس لئے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر (شراب نوشی کی) حد قائم کریں۔ عثمان ؓ نے فرمایا میرے بھتیجے یا میرے بھانجے کیا تم نے بھی رسول اللہ ﷺ کودیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ لیکن آنحضور ﷺ کے دین کی باتیں اس طرح میں نے حاصل کی تھیں جو ایک کنوا ری لڑکی کو بھی اپنے پردے میں معلوم ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سن کر پھر عثمان ؓ نے بھی اللہ کو گواہ کرکے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر اپنی کتاب نازل کی تھی اور یہ بھی واقعہ ہے کہ میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی دعوت پر (ابتداء ہی میں) لبیك کہا تھا۔ آنحضرت ﷺ جو شریعت لے کر آئے تھے میں اس پر ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا میں نے دوہجرتیں کیں۔ میں آنحضرت ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوا اور آپ ﷺ سے بیعت بھی کی۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اورنہ کبھی خیانت کی آخر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی اور حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ منتحب ہوئے۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ ان کے کسی معاملہ میں کوئی خیانت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی۔ اس کے بعد میں خلیفہ ہوا۔ کیا اب میرا تم لوگوں پر وہی حق نہیں ہے جو ان کا مجھ پر تھا؟ عبید اللہ نے عرض کیا یقینا آپ کا حق ہے پھر انہوں نے کہا پھر ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تم لوگوں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں اس کی گرفت حق کے ساتھ کریں گے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر (گواہی گزر نے کے بعد) ولید بن عقبہ کے چالیس کوڑے لگوائے گئے اور حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ کوڑے لگائيں، حضرت علی ؓ ہی نے اس کو کوڑے مارے تھے۔ اس حدیث کو یونس اورزہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے روایت کیا اس میں عثمان ؓ کا قول اس طرح بیان کیا، کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر کے ولید کوان کی جگہ مقرر کیا تھا ولید نے وہاں کئی بے اعتدالیا ں کی۔ شراب کے نشہ میں نماز پڑھا نے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عثمان ؓ نے اس کو سزا دینے میں دیر کی۔ لوگوں کو یہ ناگوار ہوا تو انہوں نے عبید اللہ بن عدی سے جو حضرت عثمان کے بھانجے اور آپ کے مقرب تھے اس مقدمہ میں حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کرنے کے لئے کہا۔ حضرت عثمان ؓ شروع میں یہ سمجھے کہ شاید عبید اللہ کوئی خدمت یا روپے کا طلب گار ہواور مجھ سے وہ نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہو اور مفت میں خرابی پھیلے۔ بعد میں جب حضرت عثمان ؓ نے واقعہ کو سمجھا تو عبید اللہ کو بلاکر گفتگو کی جو روایت میں مذکور ہے۔ عبید اللہ نے حضرت عثمان کو بتلایا کہ میں محض آپ کی خیر خواہی میں یہ باتیں کہہ رہا ہوں بعد میں حضرت عثمان نے ولید کو حضرت علی ؓ کے ہاتھوں سے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ باب کا مطلب ہجرت حبشہ سے نکلتا ہے گو حبش کے ملک کی طر ف دوبارہ ہجرت ہوئی تھی جیسے امام احمد اورابن اسحاق وغیر ہ نے نکالا ابن مسعود ؓ سے کہ پہلے آنحضرت ﷺ نے ہم لوگوں کو جو اسّی (80) آدمیوں کے قریب تھے نجاشی کے ملک میں بھیج دیا پھر ان کو یہ خبر ملی کہ مشرکوں نے سورۃ نجم میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ یہ خبر سن کر وہ مکہ لوٹ آئے وہا ں پہلے سے بھی زیاہ مشرکوں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھانے لگے آخر دوبارہ ہجرت کی اس وقت تک اسی مرد اور اٹھارہ عورتیں تھیں مگر حضرت عثمان ؓ نے دوبارہ یہ ہجرت نہیں کی اس لئے پہلی دو ہجرتوں سے حبش اور مدینہ کی ہجر ت مراد ہے حالانکہ مدینہ کی ہجرت دوسری ہجرت تھی مگر دونوں کو تغلیباً اولیین کہہ دیا جیسے شمسین، قمرین کہتے ہیں۔ تیسیر القاری کے مؤلف نے غلطی کی جو کہا حضرت عثمان ؓ نے حبش کو ہجرت نہیں کی تھی حضرت عثمان ؓ تو سب سے پہلے اپنی بی بی حضرت رقیہ ؓ کو لے کر حبش کی طرف نکلے اور شاید یہ طبع کی غلطی ہو، مؤلف کی عبارت یوں ہوکہ عثمان ؓ نے دوبارہ ہجرت نہیں کی تھی (وحیدی) دوسری روایت میں اسی کوڑوں کا ذکر ہے یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جب اسی کوڑے پڑے تو چالیس بطریق اولیٰ پڑگئے یا اس کوڑے کے دہرے ہوں گے تو چالیس ماروں کے بس اسی کوڑے ہوگئے۔ ولید کی شراب نوشی کی شہادت دینے والے حمران اور صعب تھے۔ یونس کی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے منا قب عثمان ؓ میں وصل کیا ہے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عبد البر نے تمہید میں وصل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin 'Adi bin Al-Khiyar (RA): That Al-Miswar bin Makhrama and 'Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth had said to him, "What prevents you from speaking to your uncle 'Uthman regarding his brother Al-Walid bin 'Uqba?" The people were speaking against the latter for what he had done. 'Ubaidullah said, "So I kept waiting for 'Uthman, and when he went out for the prayer, I said to him, 'I have got something to say to you as a piece of advice.' 'Uthman said, 'O man! I seek Refuge with Allah from you. So I went away. When I finished my prayer, I sat with Al-Miswar and Ibn 'Abu Yaghuth and talked to both of them of what I had said to 'Uthman and what he had said to me. They said, 'You have done your duty.' So while I was sitting with them. 'Uthman's Messenger came to me. They said, 'Allah has put you to trial." I set out and when I reached 'Uthman, he said, 'What is your advice which you mentioned a while ago?' I recited Tashahhud and added, 'Allah has sent Muhammad and has revealed the Holy Book (i.e. Qur'an) to him. You (O Uthman!) were amongst those who responded to the call of Allah and His Apostle (ﷺ) and had faith in him. And you took part in the first two migrations (to Ethiopia and to Medina), and you enjoyed the company of Allah's Apostle (ﷺ) and learned his traditions and advice. Now the people are talking much about Al-Walid bin 'Uqba and so it is your duty to impose on him the legal punishment.' 'Uthman then said to me, 'O my nephew! Did you ever meet Allah's Apostle (ﷺ) ?' I said, 'No, but his knowledge has reached me as it has reached the virgin in her seclusion.' 'Uthman then recited Tashahhud and said, 'No doubt, Allah has sent Muhammad with the Truth and has revealed to him His Holy Book (i.e. Qur'an) and I was amongst those who responded to the call of Allah and His Apostle (ﷺ) and I had faith in Muhammad's Mission, and I had performed the first two migrations as you have said, and I enjoyed the company of Allah's Apostle (ﷺ) and gave the pledge of allegiance to him. By Allah, I never disobeyed him and never cheated him till Allah caused him to die. Then Allah made Abu Bakr (RA) Caliph, and by Allah, I was never disobedient to him, nor did I cheat him. Then 'Umar became Caliph, and by Allah, I was never disobedient to him, nor did I cheat him. Then I became Caliph. Have I not then the same rights over you as they had over me?' I replied in the affirmative. 'Uthman further said, 'The what are these talks which are reaching me from you? As for what you ha mentioned about Al-Walid bin 'Uqb; Allah willing, I shall give him the leg; punishment justly. Then Uthman ordered that Al-Walid be flogged fort lashes. He ordered 'Ali to flog him an he himself flogged him as well."