Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The story of Abu Talib)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3883.
حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی کہ آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع پہنچایا جو آپ کی حمایت کیا کرتا تھا اور آپ کی خاطر دوسروں سے خفا ہوتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ٹخنوں تک ہلکی آگ میں ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتا۔‘‘
تشریح:
حضرت عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے ابو طالب کے متعلق سوال کرنا اس روایت کے ضعف پر دلالت کرتا ہے جس کا مضمون یہ ہے جب ابو طالب پر موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے لا إله إلا اللہ پڑھنے کے متعلق کہا لیکن اس نے انکار کردیا۔ پھر حضرت عباس ؓ نے اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہوئے دیکھے تو اپنے کان اس کی طرف لگائے پھر رسول اللہ ﷺ سے کہا: ’’اے میرے بھتیجے! اس نے وہ کلمہ پڑھ لیا ہے جو آپ نے پیش کیا تھا۔‘‘ یہ روایت بالکل ناقابل اعتبار ہے جو صحیح بخاری کی حدیث کے معارض پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے شرک پر مرنے کی یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ان الفاظ میں خبر دی کہ آپ کا چچا جو گمراہ تھا مر گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے دفن کردو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا وہ بحالت شرک مرا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’بس اسے دفن کردو۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3214) اس حدیث کا واضح مطلب ہے کہ ابو طالب شرک کی حالت میں مرا ہے۔ (فتح الباري:245/7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار چچے تھے ابو طالب ، ابو لہب،حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان میں سے ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے کیونکہ آپ کے والد ماجد کے سگے بھائی تھے۔جب تک زندہ رہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا پورا دفاع کیا اور آپ کی پر زور حمایت کی مگر قومی پاسداری کی وجہ سے اسلام قبول نہ کیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں چچا نے اسلام کا زمانہ پایا لیکن ان میں سے دو مسلمان ہوئے اور دو نے کفر کی روش اختیار کیے رکھی ۔ جو مسلمان ہوئے ان کے نام مسلمانوں جیسے تھے اور جنھوں نے کفر کو پسند کیا ان کے نام بھی مسلمانوں جیسے نہ تھے چنانچہ ابو طالب کا نام عبد مناف اور ابو لہب کا نام عبدالعزی تھا جبکہ مسلمان ہونے والے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔( فتح الباری:7/246۔)
حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی کہ آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع پہنچایا جو آپ کی حمایت کیا کرتا تھا اور آپ کی خاطر دوسروں سے خفا ہوتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ٹخنوں تک ہلکی آگ میں ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے ابو طالب کے متعلق سوال کرنا اس روایت کے ضعف پر دلالت کرتا ہے جس کا مضمون یہ ہے جب ابو طالب پر موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے لا إله إلا اللہ پڑھنے کے متعلق کہا لیکن اس نے انکار کردیا۔ پھر حضرت عباس ؓ نے اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہوئے دیکھے تو اپنے کان اس کی طرف لگائے پھر رسول اللہ ﷺ سے کہا: ’’اے میرے بھتیجے! اس نے وہ کلمہ پڑھ لیا ہے جو آپ نے پیش کیا تھا۔‘‘ یہ روایت بالکل ناقابل اعتبار ہے جو صحیح بخاری کی حدیث کے معارض پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے شرک پر مرنے کی یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ان الفاظ میں خبر دی کہ آپ کا چچا جو گمراہ تھا مر گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے دفن کردو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا وہ بحالت شرک مرا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’بس اسے دفن کردو۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3214) اس حدیث کا واضح مطلب ہے کہ ابو طالب شرک کی حالت میں مرا ہے۔ (فتح الباري:245/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبد الملک بن عمیرنے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابو طالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ کے لئے غصہ ہوتے تھے؟ آپ نے فرمایا (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Abbas bin 'Abdul Muttalib (RA): That he said to the Prophet (ﷺ) "You have not been of any avail to your uncle (Abu Talib) (though) by Allah, he used to protect you and used to become angry on your behalf." The Prophet (ﷺ) said, "He is in a shallow fire, and had It not been for me, he would have been in the bottom of the (Hell) Fire."