Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The story of Abu Talib)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3885.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، جب آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اس کو میری سفارش کچھ فائدہ دے گی کہ کم گہری آگ میں رکھا جائے گا جس میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبے ہوں گے مگر اس سے بھی اس کا دماغ ابل رہا ہو گا۔‘‘
تشریح:
1۔مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دعوت حق پیش کی تو اس نے کہا: اگر مجھے قریش کی عار کا اندیشہ نہ ہو کہ وہ کہیں گے ابو طالب نے موت سے گھبرا کر اپنا دین چھوڑدیا ہے، تو میں ضرور تیری آنکھیں ٹھنڈی کرتا۔ (مسند أحمد:441/2) بہر حال اس نے کلمہ نہیں پڑھا، اس لیے وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔ 2۔ایک روایت میں ہے کہ جب اس کا دماغ ابلنے لگے گا تو اندر سے بھیجا نکل کر اس کے قدموں پر پڑے گا۔ (السیرةالنبویة لابن ِسحاق:65/1، وفتح الباري:245/7۔246) کفار کے اعمال انھیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے لیکن ابو طالب کو رسول اللہ ﷺ کی حمایت کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرورہوگا۔ یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت اور آپ کی برکت ہے۔ 3۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل جہنم کے عذاب کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہوگی۔ (فتح الباري:246/7) 4اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی صحیح رہنمائی کرنا رسول اللہ ﷺ کی ذمے داری ہے لیکن صراط مستقیم پر چلانا اللہ تعالیٰ کا اختیارہے۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو راہ راست پر نہیں لا سکتے آپ صرف راستہ دکھا سکتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔ (الشوری:42۔52)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار چچے تھے ابو طالب ، ابو لہب،حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان میں سے ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے کیونکہ آپ کے والد ماجد کے سگے بھائی تھے۔جب تک زندہ رہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا پورا دفاع کیا اور آپ کی پر زور حمایت کی مگر قومی پاسداری کی وجہ سے اسلام قبول نہ کیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں چچا نے اسلام کا زمانہ پایا لیکن ان میں سے دو مسلمان ہوئے اور دو نے کفر کی روش اختیار کیے رکھی ۔ جو مسلمان ہوئے ان کے نام مسلمانوں جیسے تھے اور جنھوں نے کفر کو پسند کیا ان کے نام بھی مسلمانوں جیسے نہ تھے چنانچہ ابو طالب کا نام عبد مناف اور ابو لہب کا نام عبدالعزی تھا جبکہ مسلمان ہونے والے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔( فتح الباری:7/246۔)
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، جب آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اس کو میری سفارش کچھ فائدہ دے گی کہ کم گہری آگ میں رکھا جائے گا جس میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبے ہوں گے مگر اس سے بھی اس کا دماغ ابل رہا ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دعوت حق پیش کی تو اس نے کہا: اگر مجھے قریش کی عار کا اندیشہ نہ ہو کہ وہ کہیں گے ابو طالب نے موت سے گھبرا کر اپنا دین چھوڑدیا ہے، تو میں ضرور تیری آنکھیں ٹھنڈی کرتا۔ (مسند أحمد:441/2) بہر حال اس نے کلمہ نہیں پڑھا، اس لیے وہ عذاب میں گرفتار ہوگا۔ 2۔ایک روایت میں ہے کہ جب اس کا دماغ ابلنے لگے گا تو اندر سے بھیجا نکل کر اس کے قدموں پر پڑے گا۔ (السیرةالنبویة لابن ِسحاق:65/1، وفتح الباري:245/7۔246) کفار کے اعمال انھیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے لیکن ابو طالب کو رسول اللہ ﷺ کی حمایت کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرورہوگا۔ یہ سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت اور آپ کی برکت ہے۔ 3۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل جہنم کے عذاب کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہوگی۔ (فتح الباري:246/7) 4اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی صحیح رہنمائی کرنا رسول اللہ ﷺ کی ذمے داری ہے لیکن صراط مستقیم پر چلانا اللہ تعالیٰ کا اختیارہے۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو راہ راست پر نہیں لا سکتے آپ صرف راستہ دکھا سکتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔ (الشوری:42۔52)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن عبد اللہ ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ کے چچا کا ذکر ہورہا تھا تو آپ نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آجائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں ابو طالب کا ذکر ہے یہی وجہ منا سبت باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): That he heard the Prophet (ﷺ) when somebody mentioned his uncle (i.e. Abu Talib), saying, "Perhaps my intercession will be helpful to him on the Day of Resurrection so that he may be put in a shallow fire reaching only up to his ankles.