Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Al-Mi’raj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3888.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد: ’’اور وہ منظر جو ہم نے آپ کو دکھایا صرف لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا۔‘‘ سے مراد خواب نہیں بلکہ یہ آنکھ کی رؤیت تھی جو رسول اللہ ﷺ کو اسی رات دکھائی گئی جس رات آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہر کا درخت ہے۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ معراج خواب کی حالت میں ہواتھا۔ حدیث رویاء کو عین سے مقید کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رؤیت سے مراد حالت بیداری میں دیکھنا ہے۔ 2۔اس میں لوگوں کا امتحان تھا چنانچہ کچھ لوگ اس بات کو ناممکن خیال کرتے تھے کہ ایک رات میں بیت المقدس کیسے پہنچا جا سکتا ہے نیز مشرکین کے لیے یہ بات بھی باعث فتنہ تھی کہ زقوم کا درخت آگ میں پروان چڑھے گا۔ حالانکہ آگ تو درخت کو جلا کر ختم کر ڈالتی ہے۔ یہ تھوہر اہل جہنم کا کھانا ہوگا جو پیٹ میں گرم پانی کی طرح کھولے گا۔(الدخان:44۔43) تھوہر کا درخت اگرچہ دنیاوی تھوہر کی مانند ہوگا مگر زہر اور تلخی میں اس قدر خطرناک ہوگا کہ اہل دوزخ کے پیٹ اور ان کی آنتوں کو پھاڑ دے گا اس کے پتے اژد ہے ساپنوں کے پھنوں کی طرح ہوں گے جس کی صراحت قرآن میں ہے۔ (الصفت:37۔64)
اسراء اور معراج کا واقعہ روح اور جسم کے ساتھ حالت بیداری میں ایک ہی رات پیش آیا۔اسراء مسجد احرام سے بیت المقدس تک اور معراج بیت المقدس سے آسمانوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیر کرائی گئی۔ معراج ہجرت سے ایک سال قبل ہوا۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے واللہ اعلم۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد: ’’اور وہ منظر جو ہم نے آپ کو دکھایا صرف لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا۔‘‘ سے مراد خواب نہیں بلکہ یہ آنکھ کی رؤیت تھی جو رسول اللہ ﷺ کو اسی رات دکھائی گئی جس رات آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہر کا درخت ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ معراج خواب کی حالت میں ہواتھا۔ حدیث رویاء کو عین سے مقید کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رؤیت سے مراد حالت بیداری میں دیکھنا ہے۔ 2۔اس میں لوگوں کا امتحان تھا چنانچہ کچھ لوگ اس بات کو ناممکن خیال کرتے تھے کہ ایک رات میں بیت المقدس کیسے پہنچا جا سکتا ہے نیز مشرکین کے لیے یہ بات بھی باعث فتنہ تھی کہ زقوم کا درخت آگ میں پروان چڑھے گا۔ حالانکہ آگ تو درخت کو جلا کر ختم کر ڈالتی ہے۔ یہ تھوہر اہل جہنم کا کھانا ہوگا جو پیٹ میں گرم پانی کی طرح کھولے گا۔(الدخان:44۔43) تھوہر کا درخت اگرچہ دنیاوی تھوہر کی مانند ہوگا مگر زہر اور تلخی میں اس قدر خطرناک ہوگا کہ اہل دوزخ کے پیٹ اور ان کی آنتوں کو پھاڑ دے گا اس کے پتے اژد ہے ساپنوں کے پھنوں کی طرح ہوں گے جس کی صراحت قرآن میں ہے۔ (الصفت:37۔64)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینا رنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اللہ کے ارشاد ﴿وَمَاجَعَلنَا الرُّ ویَا الَّتِي أَرَینَا کَ الَّافِتنَةلِلنَّاسِ﴾(اور جو رؤیا ہم نے آپ کو دکھایا اس سے مقصد صرف لوگوں کا امتحان تھا) فرمایا کہ اس میں رؤیا سے آنکھ سے دیکھنا ہی مراد ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ کو اس معراج کی رات میں د کھایا گیا تھاجس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اورقرآن مجید میں ''الشجرة الملعونة'' کا ذکر آیا ہے وہ تھوہڑ کا درخت ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ درخت دوزخ میں پیدا ہوگا اگر چہ دنیاوی تھوہڑ کے مانند ہوگا مگر زہر اور تلخی میں اس قدر خطرناک ہوگا جواہل دوزخ کے پیٹ اور آنتوں کو پھاڑ د ے گا، گلے میں پھنس جائے گا۔ اس کے پتے ازدھے سانپوں کے پھنوں کی طرح ہوں گے ۔ یہی ملعون درخت ہے جس کا ذکرقرآن مجید میں آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Regarding the Statement of Allah" "And We granted the vision (Ascension to the heavens) which We made you see (as an actual eye witness) was only made as a trial for the people." (17.60) Ibn Abbas (RA) added: The sights which Allah's Apostle (ﷺ) was shown on the Night Journey when he was taken to Bait-ulMaqdis (i.e. Jerusalem) were actual sights, (not dreams). And the Cursed Tree (mentioned) in the Qur'an is the tree of Zaqqum (itself) .