باب: حضرت عائشہ ؓسے نبی کریم ﷺ کا نکاح کرنا اور آپ کامدینہ میں تشریف لانا اور حضرت عائشہ ؓکی رخصتی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Marriage of the Prophet (saws) with ‘Aishah رضي الله عنها)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3894.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میں چھ برس کی تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور بنو حارث کے محلے میں قیام کیا تو مجھے بخار آنے لگا، جس نے میرے بال گرا دیے۔ پھر جب میرے کندھوں تک بال ہو گئے تو میری والدہ حضرت ام رومان ؓ میرے پاس آئیں۔ اس وقت میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے جھولا جھول رہی تھی۔ میری والدہ نے مجھے زور سے آواز دی تو میں ان کے پاس چلی آئی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا، جبکہ میرا سانس پھول رہا تھا، حتی کہ میرا سانس کنٹرول ہوا تو انہوں نے کچھ پانی میرے منہ اور سر پر ڈالا۔ پھر مجھے صاف کر کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر میں چند انصاری خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے کہا: مبارک ہو۔ تم خیروبرکت کے ساتھ آئی ہو، تمہارا نصیب اچھا ہے۔ پھر میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا۔ پھر دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں خوفزدہ ہو گئی۔ انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا۔ اس وقت میری عمر نو برس کی تھی۔
تشریح:
1۔امام بخاری ؒ کی بیان کردہ کئی ایک احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس میں ہوئی اور نو برس تک وہ رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں رہیں جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو ان کی عمراٹھارہ برس کی تھیں، چنانچہ ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کا نکاح تو ان کی عمر چھ برس تھی اور جب وہ آپ کی خدمت میں لائی گئیں تو وہ نو برس کی تھیں، اس کے بعد نو برس تک آپ کی رفاقت میں رہیں۔ (صحیح البخاری، النکاح حدیث:5133) اصلی شہادت کے علاوہ دیگر ضمنی بیانات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت آپ چھوٹی عمر کی تھیں۔ مثلاً: آپ جب رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لے گئیں تو گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث6287) رخصتی کے وقت میں جھولا کھول رہی تھی۔ حدیث افک میں ہے کہ آپ اس وقت کمسن اور نو خیز لڑکی تھی۔ (صحیح البخاری، النکاح، حدیث:5133) نکاح کے وقت آپ کوکوئی علم نہ تھا۔ (طبقات ابن سعد:43/8) اگر نکاح یا رخصتی کے وقت آپ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی جیسا کہ معترضین حضرات کا کہنا ہے تو کیا اتنی عمر والی لڑکی کو کم سن یا نو خیز لڑکی کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو نکاح اور رخصتی چہ معنی وارد؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معترض یورپ کی سرد آب و ہوا کی گرم آب و ہوا کو قیاس کر رہا ہے۔ واقعی ٹھنڈے ممالک میں دیرسے بلوغ آتا ہے لیکن گرم ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہاں بلوغ جلد آجاتا ہے چنانچہ حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں اکیس سال کی لڑکی کو دیکھا جودادی یا نانی بن چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الشهادات، باب:18۔ قبل حدیث:2664) 2۔ اس کے علاوہ اس نکاح سے مقصود نبوت و خلافت کے باہم رشتوں کو مضبوط کرنا تھا نیز عائشہ ؓ کی طبعی ذکاوت و ذہانت سے اسلام کو فائدہ پہنچانا اور اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کا سامان مہیا کرنا تھا، الحمد للہ یہ مقاصد حرف بحرف پورے ہوئے حضرت عائشہ کی زندگی اس کی گواہ ہے تاہم یہ نبوت کی ایک استثنائی مثال ہے جس کی مسلمانوں کو پیروی صرف استثنائی صورت ہی میں کرنی چاہیے۔ 3۔ بعض لوگوں نے "الإکمال في أسماء الرجال" نامی رسالے کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی ہمشیر حضرت اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔ انھوں نے 73 ھ میں وفات پائی جبکہ ان کی عمرسو سال تھی۔ اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال بنتی ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر دس سال کم یعنی سترہ برس ہوگی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ برس ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قول قبل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو اس کے کمزور ہونے کی علامت ہے پھر یہ مستند روایات کے خلاف ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حالات میں خود لکھا ہے کہ شب عروسی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں ۔بہرحال عقل و نقل کے اعتبار سے حدیث بخاری کے مضمون میں کوئی ناممکن یا و پیچیدہ بات نہیں ہے۔ اس کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کی کتاب’’حضرت عائشہ ؓ کی عمر پر تحقیقی نظر‘‘ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میں چھ برس کی تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور بنو حارث کے محلے میں قیام کیا تو مجھے بخار آنے لگا، جس نے میرے بال گرا دیے۔ پھر جب میرے کندھوں تک بال ہو گئے تو میری والدہ حضرت ام رومان ؓ میرے پاس آئیں۔ اس وقت میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے جھولا جھول رہی تھی۔ میری والدہ نے مجھے زور سے آواز دی تو میں ان کے پاس چلی آئی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا، جبکہ میرا سانس پھول رہا تھا، حتی کہ میرا سانس کنٹرول ہوا تو انہوں نے کچھ پانی میرے منہ اور سر پر ڈالا۔ پھر مجھے صاف کر کے گھر کے اندر لے گئیں۔ گھر میں چند انصاری خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے کہا: مبارک ہو۔ تم خیروبرکت کے ساتھ آئی ہو، تمہارا نصیب اچھا ہے۔ پھر میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا۔ پھر دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں خوفزدہ ہو گئی۔ انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا۔ اس وقت میری عمر نو برس کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری ؒ کی بیان کردہ کئی ایک احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس میں ہوئی اور نو برس تک وہ رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں رہیں جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو ان کی عمراٹھارہ برس کی تھیں، چنانچہ ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کا نکاح تو ان کی عمر چھ برس تھی اور جب وہ آپ کی خدمت میں لائی گئیں تو وہ نو برس کی تھیں، اس کے بعد نو برس تک آپ کی رفاقت میں رہیں۔ (صحیح البخاری، النکاح حدیث:5133) اصلی شہادت کے علاوہ دیگر ضمنی بیانات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت آپ چھوٹی عمر کی تھیں۔ مثلاً: آپ جب رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لے گئیں تو گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث6287) رخصتی کے وقت میں جھولا کھول رہی تھی۔ حدیث افک میں ہے کہ آپ اس وقت کمسن اور نو خیز لڑکی تھی۔ (صحیح البخاری، النکاح، حدیث:5133) نکاح کے وقت آپ کوکوئی علم نہ تھا۔ (طبقات ابن سعد:43/8) اگر نکاح یا رخصتی کے وقت آپ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی جیسا کہ معترضین حضرات کا کہنا ہے تو کیا اتنی عمر والی لڑکی کو کم سن یا نو خیز لڑکی کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو نکاح اور رخصتی چہ معنی وارد؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معترض یورپ کی سرد آب و ہوا کی گرم آب و ہوا کو قیاس کر رہا ہے۔ واقعی ٹھنڈے ممالک میں دیرسے بلوغ آتا ہے لیکن گرم ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہاں بلوغ جلد آجاتا ہے چنانچہ حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں اکیس سال کی لڑکی کو دیکھا جودادی یا نانی بن چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الشهادات، باب:18۔ قبل حدیث:2664) 2۔ اس کے علاوہ اس نکاح سے مقصود نبوت و خلافت کے باہم رشتوں کو مضبوط کرنا تھا نیز عائشہ ؓ کی طبعی ذکاوت و ذہانت سے اسلام کو فائدہ پہنچانا اور اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کا سامان مہیا کرنا تھا، الحمد للہ یہ مقاصد حرف بحرف پورے ہوئے حضرت عائشہ کی زندگی اس کی گواہ ہے تاہم یہ نبوت کی ایک استثنائی مثال ہے جس کی مسلمانوں کو پیروی صرف استثنائی صورت ہی میں کرنی چاہیے۔ 3۔ بعض لوگوں نے "الإکمال في أسماء الرجال" نامی رسالے کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی ہمشیر حضرت اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔ انھوں نے 73 ھ میں وفات پائی جبکہ ان کی عمرسو سال تھی۔ اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال بنتی ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر دس سال کم یعنی سترہ برس ہوگی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ برس ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قول قبل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو اس کے کمزور ہونے کی علامت ہے پھر یہ مستند روایات کے خلاف ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حالات میں خود لکھا ہے کہ شب عروسی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں ۔بہرحال عقل و نقل کے اعتبار سے حدیث بخاری کے مضمون میں کوئی ناممکن یا و پیچیدہ بات نہیں ہے۔ اس کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کی کتاب’’حضرت عائشہ ؓ کی عمر پر تحقیقی نظر‘‘ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ (ہجرت کرکے) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان ؓ آئیں، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں، جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اورانہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی۔
حدیث حاشیہ:
حجاز چونکہ گرم ملک ہے اس لئے وہاں قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں بہت کم عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں، اس لئے حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی کے وقت صرف نوسال کی عمر تعجب خیز نہیں ہے۔ امام احمد کی روایت میں یو ں ہے کہ میں گھر کے اندر گئی تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے پاس انصار کے کئی مرد اور عورتیں ہیں ان عورتوں نے مجھ کو آنحضرت ﷺ کی گود میں بیٹھا دیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ آپ کی بیوی ہیں، اللہ مبارک کرے۔ پھر وہ سب مکا ن سے چلی گئیں۔ یہ ملاپ شوال 2ھ میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) engaged me when I was a girl of six (years). We went to Madinah and stayed at the home of Bani-al-Harith bin Khazraj. Then I got ill and my hair fell down. Later on my hair grew (again) and my mother, Um Ruman, came to me while I was playing in a swing with some of my girl friends. She called me, and I went to her, not knowing what she wanted to do to me. She caught me by the hand and made me stand at the door of the house. I was breathless then, and when my breathing became Allright, she took some water and rubbed my face and head with it. Then she took me into the house. There in the house I saw some Ansari women who said, "Best wishes and Allah's Blessing and a good luck." Then she entrusted me to them and they prepared me (for the marriage). Unexpectedly Allah's Apostle (ﷺ) came to me in the forenoon and my mother handed me over to him, and at that time I was a girl of nine years of age.