باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration of the Prophet (saws) to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
3904.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی ظاہری رونق میں سے جو چاہے اللہ اسے وہ دے دے گا یا وہ نعمتیں پسند کر لے جو اللہ کے پاس ہیں تو اس نے ان نعمتوں کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہم نے ان پر تعجب کیا اور لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے دنیا کی تروتازگی ور اپنی نعمتیں دینے میں اختیار دیا ہے اور یہ شیخ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ دراصل رسول اللہ ﷺ ہی کو اختیار دیا گیا تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ ابوبکر ؓ اس کو جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اب صرف اسلامی اخوت اور دوستی باقی ہے۔ مسجد میں ابوبکر کے دریچے کے علاوہ کوئی دریچہ نہ رہنے دیا جائے۔‘‘
تشریح:
1۔کچھ صحابہ کرام ؓ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے گھروں کے دریچے مسجد نبوی کی طرف کھولے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سب دریچوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ کے دریچے کو اس سے مستثنیٰ قراردیا تاکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے آپ کی امتیازی حیثیت برقراررہے۔ اس دریچے اور کھڑکی کا باقی رکھنا حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ 2۔اس حدیث میں رفاقت سے مراد سفرہجرت ہے جس میں اور کوئی صحابی شریک نہیں۔ واللہ اعلم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے دو ماہ تیرہ دن بعد یکم ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ طیبہ پہنچے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔اس سے پہلے اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے۔ ان کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔( فتح الباری 283/7۔)
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی ظاہری رونق میں سے جو چاہے اللہ اسے وہ دے دے گا یا وہ نعمتیں پسند کر لے جو اللہ کے پاس ہیں تو اس نے ان نعمتوں کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہم نے ان پر تعجب کیا اور لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے دنیا کی تروتازگی ور اپنی نعمتیں دینے میں اختیار دیا ہے اور یہ شیخ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ دراصل رسول اللہ ﷺ ہی کو اختیار دیا گیا تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ ابوبکر ؓ اس کو جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اب صرف اسلامی اخوت اور دوستی باقی ہے۔ مسجد میں ابوبکر کے دریچے کے علاوہ کوئی دریچہ نہ رہنے دیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔کچھ صحابہ کرام ؓ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے گھروں کے دریچے مسجد نبوی کی طرف کھولے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سب دریچوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ کے دریچے کو اس سے مستثنیٰ قراردیا تاکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے آپ کی امتیازی حیثیت برقراررہے۔ اس دریچے اور کھڑکی کا باقی رکھنا حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ 2۔اس حدیث میں رفاقت سے مراد سفرہجرت ہے جس میں اور کوئی صحابی شریک نہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابوہریرہ ؓ دونوں نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر ہجرت کا ثواب پیش نظر نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔"
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (آپ نے فرمایا: ) "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں جہاں بکثرت کھجوروں کے باغات ہیں۔ میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ تو مدینہ یثرب نکلا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے عمر بن عبید اللہ کے مولیٰ ابو النضر نے، ان سے عبید یعنی ابن حنین نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے، فرمایا اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لئے پسند کرلے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے (آخرت میں) اسے پسند کر لے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کر لیا۔ اس پر حضرت ابو بکر ؓ رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ (حضرت ابو سعید ؓ کہتے ہیں) ہمیں حضرت ابوبکر ؓ کے اس رونے پر حیرت ہوئی، بعض لوگوں نے کہا اس بزرگ کو دیکھئے حضور ﷺ تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جو اللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ حضور پر فدا ہوں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکر ؓ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پراحسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا البتہ اسلامی رشتہ ان کے ساتھ کافی ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابو بکر ؓ کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ مسلمانوں نے جو مسجد بنوی کے ارد گرد رہتے تھے اپنے ا پنے گھروں میں ایک ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھول لی تھی تاکہ جلدی سے مسجد کی طرف چلے جا ئیں یا جب چاہیں آنحضرت ﷺ کی زیارت اپنے گھر ہی سے کر لیں آپ نے حکم دیا یہ کھڑکیاں سب بند کردی جائیں صرف ابو بکر ؓ کی کھڑکی قائم رہے۔ بعض نے اس حدیث کوحضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت اور افضلیت مطلقہ کی دلیل ٹھہرائی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) sat on the pulpit and said, "Allah has given one of His Slaves the choice of receiving the splendor and luxury of the worldly life whatever he likes or to accept the good (of the Hereafter) which is with Allah. So he has chosen that good which is with Allah." On that Abu Bakr (RA) wept and said, "Our fathers and mothers be sacrificed for you." We became astonished at this. The people said, "Look at this old man! Allah's Apostle (ﷺ) talks about a Slave of Allah to whom He has given the option to choose either the splendor of this worldly life or the good which is with Him, while he says. 'our fathers and mothers be sacrifice(i for you." But it was Allah's Apostle (ﷺ) who had been given option, and Abu Bakr (RA) knew it better than we. Allah's Apostle (ﷺ) added, "No doubt, I am indebted to Abu Bakr (RA) more than to anybody else regarding both his companionship and his wealth. And if I had to take a Khalil from my followers, I would certainly have taken Abu Bakr, but the fraternity of Islam is. sufficient. Let no door (i.e. Khoukha) of the Mosque remain open, except the door of Abu Bakr."