باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration of the Prophet (saws) to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
3911.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: ’’اے اللہ! اسے گرا دے۔‘‘ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں تعمیل ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور کسی کو ہمارے پاس نہ پہنچنے دو۔‘‘ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ وہ دن کے آغاز میں آپ کو پکڑنے والا تھا اور دن کے آخری حصے میں آپ کے لیے ہتھیار کا کام دینے لگا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے پاس حرہ کی جانب فروکش ہوئے۔ پھر آپ نے انصار مدینہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ نبی ﷺ کی حفاظت کے لیے آ گئے۔ انہوں نے ان دونوں کو سلام کیا اور کہا: آپ امن و امان سے سوار رہیں۔ اب آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی، چنانچہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ سوار ہوئے اور انصار نے ہتھیار لے کر ان دونوں کو اپنے جلو میں لیا اور عازم مدینہ ہوئے۔ ادھر مدینہ طیبہ میں یہ نعرہ لگایا جا رہا تھا: اللہ کے نبی آ گئے! اللہ کے نبی تشریف لے آئے! لوگ اونچی جگہوں پر چڑھ کر آپ کو دیکھ رہے تھے اور کہتے تھے: اللہ کے نبی تشریف لے آئے! اللہ کے نبی آ گئے! اسی حال میں چلتے چلتے آپ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان کے پاس اتر پڑے۔ آپ گھر والوں سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے سنا جبکہ وہ اس وقت اپنے گھر والوں کے باغ میں کھجوریں چن رہے تھے، وہ جلدی سے جمع کی ہوئی کھجوریں ساتھ ہی لے کر آ گئے اور نبی ﷺ سے باتیں سن کر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ اس دوران میں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے عزیزوں میں سے کس کا گھر قریب ہے؟‘‘ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’چلو اور ہمارے لیے قیلولہ کرنے کی جگہ تیار کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کی برکت سے آپ دونوں حضرات اٹھیں (قیلولے کا انتظام ہو چکا ہے)۔ پھر جب نبی ﷺ ان کے گھر میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ وہاں آ گئے اور عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور سردار کا بیٹا ہوں، ان کا بڑا عالم اور بڑے عالم کا بیٹا ہوں۔ آپ انہیں بلا کر ان سے میرے متعلق پوچھیں لیکن انہیں یہ علم نہ ہونے پائے کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں تو میرے متعلق ایسی باتیں کریں گے جو مجھ میں نہیں ہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے (انہیں) پیغام بھیجا تو وہ آئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تب رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اے جماعتِ یہود! تمہاری خرابی ہو، اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! بلاشبہ تم خوب جانتے ہو کہ یقینا میں اللہ کا رسول ہوں اور تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، لہذا تم اسلام لے آؤ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے نبی ﷺ سے تین مرتبہ کہی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: وہ ہمارا سردار اور ہمارے سردار کا بیٹا ہے اور ہمارے بڑا عالم اور بڑے عالم کا فرزند ارجمند ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بتاؤ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو؟‘‘ انہوں نے کہا کہ اللہ ایسا نہ کرے، وہ اسلام قبول نہیں کر سکتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ انہیں بچائے، وہ اسلام قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ نے پھر تیسری مرتبہ پوچھا: ’’اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ انہیں محفوظ رکھے، وہ مسلمان ہونے والے نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن سلام! باہر آؤ۔‘‘ وہ باہر آئے اور ان سے کہا: اے گروہ یہود! اس اللہ سے ڈرو جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تم خوب جانتے ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور سچا مذہب لے کر آئے ہیں۔ یہودیوں نے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر (اس بدتمیزی کی بنا پر) رسول اللہ ﷺ نے انہیں باہر نکال دیا۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ، سیدنا ابوبکر ؓ سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے۔ لیکن دیکھنے میں ابوبکر بوڑھے معلوم ہوتے تھے کیونکہ ان کے بال کافی سفید ہوچکے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے تمام بال سیاہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ جوان آدمی ہیں۔ 2۔حضرت ابوبکرچونکہ تجارت پیشہ تھے اور اکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے، اس لیے لوگ آپ کو جانتے پہچانتے تھے۔ 3۔ا س حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی آمد کا سن کر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سوالات کیے اور کہا: ان کا جواب صرف نبی جانتا ہے اول یہ کہ قیامت کب آئے گی اور اس کی علامات کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ اہل جنت کو سب سے پہلے کون سا کھانا کھلایا جائے گا؟ تیسرا یہ کہ بچہ کبھی اپنے باپ اور کبھی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جب ان تینوں سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ 4۔اس کے بعد یہودیوں کا کردار بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو اس وقت تورات میں موجود تھیں۔ انھی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول کیا۔ (فتح الباري:315/7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے دو ماہ تیرہ دن بعد یکم ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ طیبہ پہنچے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔اس سے پہلے اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے۔ ان کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔( فتح الباری 283/7۔)
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: ’’اے اللہ! اسے گرا دے۔‘‘ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں تعمیل ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور کسی کو ہمارے پاس نہ پہنچنے دو۔‘‘ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ وہ دن کے آغاز میں آپ کو پکڑنے والا تھا اور دن کے آخری حصے میں آپ کے لیے ہتھیار کا کام دینے لگا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے پاس حرہ کی جانب فروکش ہوئے۔ پھر آپ نے انصار مدینہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ نبی ﷺ کی حفاظت کے لیے آ گئے۔ انہوں نے ان دونوں کو سلام کیا اور کہا: آپ امن و امان سے سوار رہیں۔ اب آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی، چنانچہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ سوار ہوئے اور انصار نے ہتھیار لے کر ان دونوں کو اپنے جلو میں لیا اور عازم مدینہ ہوئے۔ ادھر مدینہ طیبہ میں یہ نعرہ لگایا جا رہا تھا: اللہ کے نبی آ گئے! اللہ کے نبی تشریف لے آئے! لوگ اونچی جگہوں پر چڑھ کر آپ کو دیکھ رہے تھے اور کہتے تھے: اللہ کے نبی تشریف لے آئے! اللہ کے نبی آ گئے! اسی حال میں چلتے چلتے آپ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان کے پاس اتر پڑے۔ آپ گھر والوں سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے سنا جبکہ وہ اس وقت اپنے گھر والوں کے باغ میں کھجوریں چن رہے تھے، وہ جلدی سے جمع کی ہوئی کھجوریں ساتھ ہی لے کر آ گئے اور نبی ﷺ سے باتیں سن کر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ اس دوران میں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے عزیزوں میں سے کس کا گھر قریب ہے؟‘‘ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’چلو اور ہمارے لیے قیلولہ کرنے کی جگہ تیار کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کی برکت سے آپ دونوں حضرات اٹھیں (قیلولے کا انتظام ہو چکا ہے)۔ پھر جب نبی ﷺ ان کے گھر میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن سلام ؓ وہاں آ گئے اور عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور سردار کا بیٹا ہوں، ان کا بڑا عالم اور بڑے عالم کا بیٹا ہوں۔ آپ انہیں بلا کر ان سے میرے متعلق پوچھیں لیکن انہیں یہ علم نہ ہونے پائے کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں تو میرے متعلق ایسی باتیں کریں گے جو مجھ میں نہیں ہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے (انہیں) پیغام بھیجا تو وہ آئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تب رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اے جماعتِ یہود! تمہاری خرابی ہو، اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! بلاشبہ تم خوب جانتے ہو کہ یقینا میں اللہ کا رسول ہوں اور تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، لہذا تم اسلام لے آؤ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے نبی ﷺ سے تین مرتبہ کہی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: وہ ہمارا سردار اور ہمارے سردار کا بیٹا ہے اور ہمارے بڑا عالم اور بڑے عالم کا فرزند ارجمند ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بتاؤ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو؟‘‘ انہوں نے کہا کہ اللہ ایسا نہ کرے، وہ اسلام قبول نہیں کر سکتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ انہیں بچائے، وہ اسلام قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ نے پھر تیسری مرتبہ پوچھا: ’’اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ انہیں محفوظ رکھے، وہ مسلمان ہونے والے نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن سلام! باہر آؤ۔‘‘ وہ باہر آئے اور ان سے کہا: اے گروہ یہود! اس اللہ سے ڈرو جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تم خوب جانتے ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور سچا مذہب لے کر آئے ہیں۔ یہودیوں نے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے۔ پھر (اس بدتمیزی کی بنا پر) رسول اللہ ﷺ نے انہیں باہر نکال دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ، سیدنا ابوبکر ؓ سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے۔ لیکن دیکھنے میں ابوبکر بوڑھے معلوم ہوتے تھے کیونکہ ان کے بال کافی سفید ہوچکے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے تمام بال سیاہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ جوان آدمی ہیں۔ 2۔حضرت ابوبکرچونکہ تجارت پیشہ تھے اور اکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے، اس لیے لوگ آپ کو جانتے پہچانتے تھے۔ 3۔ا س حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی آمد کا سن کر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سوالات کیے اور کہا: ان کا جواب صرف نبی جانتا ہے اول یہ کہ قیامت کب آئے گی اور اس کی علامات کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ اہل جنت کو سب سے پہلے کون سا کھانا کھلایا جائے گا؟ تیسرا یہ کہ بچہ کبھی اپنے باپ اور کبھی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جب ان تینوں سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ 4۔اس کے بعد یہودیوں کا کردار بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو اس وقت تورات میں موجود تھیں۔ انھی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول کیا۔ (فتح الباري:315/7)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابوہریرہ ؓ دونوں نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر ہجرت کا ثواب پیش نظر نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔"
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (آپ نے فرمایا: ) "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں جہاں بکثرت کھجوروں کے باغات ہیں۔ میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ تو مدینہ یثرب نکلا۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن حضور ﷺ کرم ﷺ ابھی جوان معلوم ہوتے تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے بھی نہ تھے ۔ بیان کیاکہ اگر رستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ میرے ہادی ہیں، مجھے راستہ بتاتے ہیں پوچھنے والا یہ سمجھتا کہ مدینہ کا راستہ بتلانے والا ہے اور ابو بکر ؓ کا مطلب اس کلام سے یہ تھا کہ آپ دین وایمان کا راستہ بتلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر ؓ پیچھے مڑے تو ایک سوار نظر آیا جو ان کے قریب آچکا تھا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ سوار آگیا اور اب ہمارے قریب ہی پہنچنے والا ہے نبی کریم ﷺ نے بھی اسے مڑ کر دیکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے گرادے چنانچہ گھوڑی نے اسے گرادیا۔ پھر جب وہ ہنہناتی ہوئی اٹھی تو سوار (سراقہ) نے کہا اے اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ حضور ﷺ کرم ﷺ نے فرمایا اپنی جگہ کھڑا رہ اور دیکھ کسی کو ہماری طرف نہ آنے دینا۔ راوی نے بیان کیا کہ وہی شخص جو صبح آپ کے خلاف تھا شام جب ہوئی تو آپ کا وہ ہتھیار تھا دشمن کو آپ سے روکنے لگا۔ اس کے بعد حضور ﷺ کرم ﷺ (مدینہ پہنچ کر) حرہ کے قریب اترے اور انصار کو بلابھیجا۔ اکابر انصار حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کو سلام کیا اور عرض کیا آپ سوار ہو جائیں آپ کی حفاظت اور فرمانبرداری کی جائے گی، چنانچہ حضور ﷺ اور ابوبکر ؓ سوار ہو گئے اور ہتھیار بند انصار نے آپ دونوں کو حلقہ میں لے لیا۔ اتنے میں مدینہ میں بھی سب کو معلوم ہو گیا کہ حضور ﷺ تشریف لا چکے ہیں سب لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے بلندی پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبی آگئے۔ اللہ کے نبی آگئے۔ آنحضرت ﷺ مدینہ کی طرف چلتے رہے اور (مدینہ پہنچ کر) حضرت ابوایوب ؓ کے گھرکے پاس سواری سے اتر گئے۔ عبد اللہ بن سلام ؓ (ایک یہودی عالم نے) اپنے گھر والوں سے حضور ﷺ کا ذکر سنا، وہ اس وقت اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھے اور کھجور جمع کر رہے تھے انہوں نے (سنتے ہی) بڑی جلدی کے ساتھ جو کچھ کھجور جمع کر چکے تھے اسے رکھ دینا چاہا جب آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جمع شدہ کھجوریں ان کے ساتھ ہی تھیں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی باتیں سنیں اور اپنے گھر واپس چلے آئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے (نانہالی) اقارب میں کس کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے؟ ابوایوب ؓ نے عرض کیا کہ میرا اے اللہ کے نبی! یہ میرا گھر ہے اور یہ اس کا دروازہ ہے فرمایا (اچھا تو جاؤ) دوپہر کو آرام کر نے کی جگہ ہمارے لئے درست کرو ہم دوپہر کو وہیں آرام کر یں گے۔ ابو ایوب ؓ نے عرض کیا پھر آپ دونوں تشریف لے چلیں، اللہ مبارک کرے۔ حضور ﷺ بھی ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عبداللہ بن سلام بھی آگئے اور کہا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔‘‘ اور یہودی میرے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا سردار ہوں اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں اور ان میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام لانے کا خیال انہیں معلوم ہو، بلایئے اور ان سے میرے بارے میں دریافت فر یئے، کیونکہ انہیں اگر معلوم ہو گیا کہ میں اسلام لاچکا ہوں تو میرے متعلق غلط باتیں کہنی شروع کردیں گے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے انہیں بلا بھیجا اور جب وہ آپ کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا اے یہودیو! افسوس تم پر، اللہ سے ڈرو، اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول بر حق ہوں اور یہ بھی کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، پھر اب اسلام میں داخل ہو جاؤ، انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے، نبی کریم ﷺ نے ان سے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اچھا عبد اللہ بن سلام تم میں کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے، ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ہمارےسب سے بڑے عالم کے بیٹے، آپ نے فرمایا اگر وہ اسلام لے آئیں۔ پھر تمہارا کیا خیال ہو گا۔ کہنے لگے اللہ ان کی حفاظت کرے، وہ اسلام کیو ں لانے لگے۔ آپ نے فرمایا ابن سلام! اب ان کے سامنے آجاؤ۔ عبداللہ بن سلام ؓ باہر آگئے اور کہا اے یہود! خدا سے ڈرو اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہیں خوب معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودیوں نے کہا تم جھوٹے ہو۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے باہر چلے جانے کے لئے فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
نوٹ: حضور اکرم ﷺ ابوبکر ؓ سے دو سال کئی مہینے عمر میں بڑے تھے لیکن اس وقت تک آپ کے بال سیاہ تھے اس لئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں لیکن ابوبکر ؓ کی داڑھی کے بال کافی سفید ہو چکے تھے۔ راوی نے اسی کی تعبیر بیان کی ہے ابوبکر ؓ چونکہ تاجر تھے اوراکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے اس لئے لوگ آپ ؓ کو پہچانتے تھے۔ حدیث مذکور میں واقعہ ہجرت سے متعلق چند امور بیان کئے گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے 27 صفر13 نبوی روز پنج شنبہ مطابق12 ستمبر622ء مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے سفر شروع فرمایا مکہ سے چند میل فاصلہ پر کوہ ثور ہے ابتدا ء میں آپ نے اپنے سفر میں قیام کے لئے اسی پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا جہاں تین راتوں تک آپ نے قیام فرمایا۔ اس کے بعد یکم ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 16 ستمبر622 ء میں آپ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے راستے میں بہت سے موا فق اور نا موافق حالات پیش آئے مگر آپ بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ کے سفر کے بعد خیریت وعافیت کے ساتھ8 ربیع الاول13نبوی روز دوشنبہ مطابق 23 ستمبر622 ء مدینہ کے متصل ایک بستی قبا نامی میں پہنچ گئے اور پنج شنبہ تک یہاں آرام فرمایا اس دوران میں آپ نے یہاں مسجد قبا کی بنیاد ڈالی12ربیع الاول 1 ھ جمعہ کے دن آپ قبا سے روانہ ہو کر بنو سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا اور آپ نے یہاں سو مسلمانوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا جمعہ سے فارغ ہو کر آپ یثرب کے جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج شہر یثرب مدینہ النبی کے نا م سے موسوم ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو توراۃ میں موجود تھیں چنانچہ حبقوق نبی کی کتاب باب 3درس 3 میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جوقدوس ہے کوہ فاراں سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی یہاں مدینہ کے داخلہ پر یہ اشارے ہیں۔ کتاب بسویا 42 باب 11 میں ہے کہ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔ یہ گیت آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری پر گایا گیا۔ مدینہ کا نام پہلے انبیاءکی کتابوں میں سلع ہے۔ جنگ خندق میں مسلمانوں نے جس جگہ خندق کھودی تھی وہاں ایک پہاڑی کا نام جبل سلع مدینہ والوں کی زبان پر عام مروج تھا۔ ان ہی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول فرما لیا۔ ترمذی کی روایت کے مطابق عبد اللہ بن سلام ؓ نے رسول کریم ﷺ کا کلام پاک آپ کے لفظوں میں سنا تھا جس کے سنتے ہی وہ اسلام کے شید ا بن گئے۔ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ» یعنی ”اے لوگو! امن وسلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو۔ ان عملوں کے نتیجہ میں تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“ اولین میزبان رسول کریم ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جن کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا۔ عمر میں حضرت رسول کریم ﷺسے حضرت ابو بکر ؓ دو سال چھوٹے تھے مگر ان پربڑھاپا غالب آگیا تھا۔ بال سفید ہو گئے تھے۔ وہ اکثر اطراف عرب میں بہ سلسلہ تجارت سفر بھی کیا کرتے تھے اس لئے لوگ ان سے زیادہ واقف تھے۔ ابو ایوب انصاری ؓ بنو نجار میں سے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے دادا کی ماں اسی خاندان سے تھیں اس لئے یہ قبیلہ آپ کا نانہال قرار پایا۔ حضرت ابو ایوب ؓ کا نام خالد بن زید بن کلیب انصاری ہے۔ آپ کی وفات 51ھ میں قسطنطنیہ میں ہوئی اور یہ اس وقت یزید بن معاویہ کے ساتھ تھے۔ جب کہ ان کے والد حضرت امیر معاویہ ؓ قسطنطنیہ میں جہاد کر رہے تھے تو ان کے ساتھ نکلے اور بیمار ہو گئے۔ جب بیماری نے زور پکڑا تو اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کو اٹھا لینا پھر جب تم دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے جو آج تک مشہور ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) arrived at Madinah with Abu Bakr, riding behind him on the same camel. Abu Bakr (RA) was an elderly man known to the people, while Allah's Apostle (ﷺ) was a youth that was unknown. Thus, if a man met Abu Bakr, he would day, "O Abu Bakr! Who is this man in front of you?" Abu Bakr (RA) would say, "This man shows me the Way," One would think that Abu Bakr (RA) meant the road, while in fact, Abu Bakr (RA) meant the way of virtue and good. Then Abu Bakr (RA) looked behind and saw a horse-rider persuing them. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This is a horse-rider persuing us." The Prophet (ﷺ) looked behind and said, "O Allah! Cause him to fall down." So the horse threw him down and got up neighing. After that the rider, Suraqa said, "O Allah's Prophet! Order me whatever you want." The Prophet (ﷺ) said, "Stay where you are and do not allow anybody to reach us." So, in the first part of the day Suraqa was an enemy of Allah's Prophet (ﷺ) and in the last part of it, he was a protector. Then Allah's Apostle (ﷺ) alighted by the side of the Al-Harra and sent a message to the Ansar, and they came to Allah's Prophet (ﷺ) and Abu Bakr, and having greeted them, they said, "Ride (your she-camels) safe and obeyed." Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) rode and the Ansar, carrying their arms, surrounded them. The news that Allah's Prophet (ﷺ) had come circulated in Medina. The people came out and were eagerly looking and saying "Allah's Prophet (ﷺ) has come! Allah's Prophet (ﷺ) has come! So the Prophet (ﷺ) went on till he alighted near the house of Abu Aiyub. While the Prophet (ﷺ) was speaking with the family members of Abu Aiyub, 'Abdullah bin Salam heard the news of his arrival while he himself was picking the dates for his family from his family garden. He hurried to the Prophet (ﷺ) carrying the dates which he had collected for his family from the garden. He listened to Allah's Prophet (ﷺ) and then went home. Then Allah's Prophet (ﷺ) said, "Which is the nearest of the houses of our kith and kin?" Abu Aiyub replied, "Mine, O Allah's Prophet! This is my house and this is my gate." The Prophet (ﷺ) said, "Go and prepare a place for our midday rest." Abu Aiyub said, "Get up (both of you) with Allah's Blessings." So when Allah's Prophet (ﷺ) went into the house, 'Abdullah bin Salaim came and said "I testify that you (i.e. Muhammad) are Apostle of Allah (ﷺ) and that you have come with the Truth. The Jews know well that I am their chief and the son of their chief and the most learned amongst them and the son of the most learned amongst them. So send for them (i.e. Jews) and ask them about me before they know that I have embraced Islam, for if they know that they will say about me things which are not correct." So Allah's Apostle (ﷺ) sent for them, and they came and entered. Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "O (the group of) Jews! Woe to you: be afraid of Allah. By Allah except Whom none has the right to be worshipped, you people know for certain, that I am Apostle of Allah (ﷺ) and that I have come to you with the Truth, so embrace Islam." The Jews replied, "We do not know this." So they said this to the Prophet (ﷺ) and he repeated it thrice. Then he said, "What sort of a man is 'Abdullah bin Salam amongst you?" They said, "He is our chief and the son of our chief and the most learned man, and the son of the most learned amongst us." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, " What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "O Ibn Salaim! Come out to them." He came out and said, "O (the group of) Jews! 8e afraid of Allah except Whom none has the right to be worshipped. You know for certain that he is Apostle of Allah (ﷺ) and that he has brought a True Religion!' They said, "You tell a lie." On that Allah's Apostle (ﷺ) turned them out.