باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration of the Prophet (saws) to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
3918.
حضرت براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ ان کے گھر گیا تو ان کی صاجزادی سیدہ عائشہ ؓ لیٹی ہوئی تھیں۔ انہیں سخت بخار تھا۔ میں نے ان کے والد کو دیکھا، انہوں نے ان کے رخسار پر بوسہ دیا اور فرمایا: پیاری بیٹی! تمہاری طبیعت کیسی ہے؟
تشریح:
1۔ حضرت ابو بکر ؓ کے فضائل و مناقب میں یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ سفر ہجرت میں آپ نے رسول اللہ ﷺ کا فدا کا رانہ ساتھ دیا اور آپ کی ہر ممکن خدمت کی۔ اس کے صلے میں قیامت تک کے لیے آپ کو’’یار غار‘‘ کا لقب ملا۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر ایسی فضیلت حاصل ہے جو چاند کو تمام ستاروں پر ہے۔ زندگی کے بعد بھی وہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں محواستراحت ہیں۔رضي اللہ عنه و أرضاه 2۔اس حدیث میں حضرت براء بن عازب ؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ حضرت ابو بکر ؓ کے گھر میں داخل ہوئے اور انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا یقیناً یہ واقعہ نزول حجاب سے پہلے کا ہے اور حضرت عائشہ ؓ اس وقت نابالغہ تھیں اور وہ بھی اس وقت حد بلوغت کو نہیں پہنچے تھے۔3۔امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی بیماری کا ذکر صرف اس مقام پر کیا ہے، حالانکہ صحیح بخاری میں متعدد مرتبہ سفر ہجرت بیان ہوا ہے۔(فتح الباري:321/7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے دو ماہ تیرہ دن بعد یکم ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ طیبہ پہنچے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔اس سے پہلے اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے۔ ان کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔( فتح الباری 283/7۔)
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ ان کے گھر گیا تو ان کی صاجزادی سیدہ عائشہ ؓ لیٹی ہوئی تھیں۔ انہیں سخت بخار تھا۔ میں نے ان کے والد کو دیکھا، انہوں نے ان کے رخسار پر بوسہ دیا اور فرمایا: پیاری بیٹی! تمہاری طبیعت کیسی ہے؟
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابو بکر ؓ کے فضائل و مناقب میں یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ سفر ہجرت میں آپ نے رسول اللہ ﷺ کا فدا کا رانہ ساتھ دیا اور آپ کی ہر ممکن خدمت کی۔ اس کے صلے میں قیامت تک کے لیے آپ کو’’یار غار‘‘ کا لقب ملا۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر ایسی فضیلت حاصل ہے جو چاند کو تمام ستاروں پر ہے۔ زندگی کے بعد بھی وہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں محواستراحت ہیں۔رضي اللہ عنه و أرضاه 2۔اس حدیث میں حضرت براء بن عازب ؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ حضرت ابو بکر ؓ کے گھر میں داخل ہوئے اور انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا یقیناً یہ واقعہ نزول حجاب سے پہلے کا ہے اور حضرت عائشہ ؓ اس وقت نابالغہ تھیں اور وہ بھی اس وقت حد بلوغت کو نہیں پہنچے تھے۔3۔امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی بیماری کا ذکر صرف اس مقام پر کیا ہے، حالانکہ صحیح بخاری میں متعدد مرتبہ سفر ہجرت بیان ہوا ہے۔(فتح الباري:321/7)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابوہریرہ ؓ دونوں نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر ہجرت کا ثواب پیش نظر نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔"
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (آپ نے فرمایا: ) "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں جہاں بکثرت کھجوروں کے باغات ہیں۔ میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ تو مدینہ یثرب نکلا۔"
حدیث ترجمہ:
براء نے بیان کیا کہ جب میں ابوبکر ؓ کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوا تھا تو آپ کی صاحبزادی عائشہ ؓ لیٹی ہوئی تھیں انہیں بخار آرہا تھا میں نے ان کے والد کو دیکھا کہ انہوں نے ان کے رخسار پر بوسہ دیا اور دریافت کیا بیٹی ! طبیعت کیسی ہے ؟
حدیث حاشیہ:
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے فضائل ومناقب میں یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ سفر ہجرت میں آپ نے رسول کریم ﷺ کا فدا کار انہ ساتھ دیا اور آپ کی ہر ممکن خدمت انجام دی ۔ جس کے صلہ میں قیامت تک کے لئے آپ کو آنحضرت ﷺ کا یار غار کہا گیا ہے حقیقت یہ کہ آپ کو تمام صحابہ ؓ پر ایسی فوقیت حاصل ہے جیسی چاند کو آسمان کے تمام ستاروں پر حاصل ہے۔ وہ نام نہاد مسلمان بڑے ہی بد بخت ہیں جو ایسے سچے پختہ مومن مسلمان صحابی رسول کو برا کہتے ہیں اورتبراّ بازی سے اپنی زبانوں کو گندی کرتے ہیں۔ جب تک اس دنیا میں اسلام زندہ ہے حضرت صدیق اکبر ؓ کانام نامی اسلام کے ساتھ زندہ رہے گا۔ اللہ نے آپ کی خدمات جلیلہ کایہ صلہ آپ رضی اللہ عنہ کو بخشا کہ قیامت تک کے لئے آپ رسول کریم ﷺ کے پہلو میں گنبد خضرا میں آرام فرما رہے ہیں۔ اللہ پاک ہماری طرف سے ان کی پاک روح پر بے شمار سلام اور رحمتیں نازل فرمائے اور قیامت کے دن اپنے حبیب کے ساتھ آپ کے جملہ فدائیوں کی ملاقات نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Bara added: I then went with Abu Bakr (RA) into his home (carrying that saddle) and there I saw his daughter 'Aisha (RA) Lying in a bed because of heavy fever and I saw her father Abu Bakr (RA) kissing her cheek and saying, "How are you, little daughter?"