باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The arrival of the Prophet (saws) at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3928.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ منی میں اپنے اہل خانہ کی طرف آ رہے تھے اور وہ حضرت عمر ؓ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے راستے میں پا لیا (تو ایک اعلان کرنے کا مشورہ کیا)۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! موسم حج میں عام لوگ جمع ہوتے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپ اس اعلان کے لیے کچھ دیر کریں۔ جب مدینہ طیبہ تشریف لائیں جو کہ دارِ ہجرت اور سنت نبوی کا مرکز ہے وہاں آپ فقیہ، اہل فکر اور صاحب بصیرت لوگوں کو پائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مدینہ طیبہ پہنچ کر میں سب سے پہلے لوگوں سے اسی موضوع پر گفتگو کروں گا۔
تشریح:
1۔ اس مقام پر یہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان ہوئی ہے دراصل حضرت عمر ؓ کوکسی شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے کہا ہے کہ اگر عمر ؓ فوت ہو گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔ چونکہ اس طرح کی افواہیں حکومت کے استحکام کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس کا نوٹس لینا چاہا جسے حضرت عبد الرحمٰن ؓ کے مشورہ دینے سے مؤخر کردیا گیا۔ اس کی تفصیل حدیث 6830۔ میں بیان ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں اہل مدینہ کے صاحب بصیرت اور اہل شعور ہونے کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا لیکن بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد ماہ محرم ہی میں ہجرت کا عزم کر لیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ یا بارہ ربیع الاول بروز سوموار کو مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ سے پہلے مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے اس کی تفصیل ہجرت کے باب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ منی میں اپنے اہل خانہ کی طرف آ رہے تھے اور وہ حضرت عمر ؓ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے راستے میں پا لیا (تو ایک اعلان کرنے کا مشورہ کیا)۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! موسم حج میں عام لوگ جمع ہوتے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپ اس اعلان کے لیے کچھ دیر کریں۔ جب مدینہ طیبہ تشریف لائیں جو کہ دارِ ہجرت اور سنت نبوی کا مرکز ہے وہاں آپ فقیہ، اہل فکر اور صاحب بصیرت لوگوں کو پائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مدینہ طیبہ پہنچ کر میں سب سے پہلے لوگوں سے اسی موضوع پر گفتگو کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس مقام پر یہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان ہوئی ہے دراصل حضرت عمر ؓ کوکسی شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے کہا ہے کہ اگر عمر ؓ فوت ہو گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔ چونکہ اس طرح کی افواہیں حکومت کے استحکام کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس کا نوٹس لینا چاہا جسے حضرت عبد الرحمٰن ؓ کے مشورہ دینے سے مؤخر کردیا گیا۔ اس کی تفصیل حدیث 6830۔ میں بیان ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں اہل مدینہ کے صاحب بصیرت اور اہل شعور ہونے کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھے یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبید اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ منیٰ میں اپنے خیمہ کی طرف واپس آرہے تھے، یہ عمر ؓ کے آخری حج کا واقعہ ہے تو ان کی مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہاکہ (عمر ؓ حاجیوں کو خطاب کرنے والے تھے اس لئے) میں نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین! موسم حج میں معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے سب طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور شور وغل بہت ہوتا ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ اپنا ارادہ موقوف کر دیں اور مدینہ پہنچ کر (خطاب فرمائیں) کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا گھر ہے اور وہاں سمجھدار معزز اور صاحب عقل لوگ رہتے ہیں۔ اس پرعمر ؓ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلی فرصت میں لوگوں کو خطاب کرنے کے لئے ضرور کھڑا ہوں گا۔
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ کسی نادان نے منیٰ میں عین موسم حج میں یہ کہا تھا کہ اگر عمر مر جائیں تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔ ابو بکر ؓ سے لوگوں نے بن سوچے سمجھے بیعت کر لی تھی۔ یہ بات حضرت عمر ؓ تک پہنچ گئی جس پر حضرت عمر ؓ کو غصہ آگیا اور اس شخص کو بلا کر تنبیہ کا خیال ہوا مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے یہ صلاح دی کہ یہ موسم حج ہے ہر قسم کے دانا و نادان لوگ یہاں جمع ہیں یہا ں یہ مناسب نہ ہوگا مدینہ شریف پہنچ کر آپ جو چاہیں کریں۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت عبد الرحمن ؓ کایہ مشورہ قبول فرما لیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): During the last Hajj led by 'Umar, 'Abdur-Rahman bin 'Auf returned to his family at Mina and met me there. 'AbdurRahman said (to 'Umar), "O chief of the believers! The season of Hajj is the season when there comes the scum of the people (besides the good amongst them), so I recommend that you should wait till you go back to Medina, for it is the place of Migration and Sunna (i.e. the Prophet's tradition), and there you will be able to refer the matter to the religious scholars and the nobles and the people of wise opinions." 'Umar said, "I will speak of it in Madinah on my very first sermon I will deliver there."